عالمی آرڈر: اختتامیہ

گزشتہ کئی دہائیوں سے بالخصوص گزشتہ چند برس سے مشاہدے میں آ رہا ہے کہ دنیا پر عالمی طاقتوں کا اثرورسوخ پہلے جیسا مضبوط نہیں رہا اور اِس کی وجہ سے ٹیکنالوجی و تجارت کے شعبوں میں بننے والے وہ سبھی اتحاد ہیں جن کی قیادت چین کر رہا ہے اور چین کی قیادت سمجھتی ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی اور اثرورسوخ کا ہرگز ہرگز مطلب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ وہ زیراثر ملک کی معیشت اور خارجہ پالیسی جیسے فیصلوں پر اثرانداز ہو۔ دنیا نے سال دوہزارایک دیکھا جب امریکی پوری دنیا پر حاوی تھے اور پھر سال 2008-09ء سے پے در پے مالیاتی بحرانوں نے امریکی اور عالمی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ گزشتہ سال(دوہزاربائیس) میں رونما ہونے والے واقعات بھی ہیں جنہوں نے عالمی سلامتی کے نظام کو متاثر کیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا جسے استحکام اور سلامتی کا دور سمجھتی تھی وہ دور اب نہیں رہا۔ جنگ عظیم کے بعد کے دور کی نسبت عالمی سلامتی نے ممالک اور خاص طور پر یورپ کی صنعتی معیشتوں کی سلامتی کو جھوٹے احساس میں مبتلا رکھا۔ امریکہ کی طرف سے بار بار زور دینے کے باوجود‘ سرمایہ دار یورپی ممالک بالخصوص نیٹو تنظیم کے اتحاد اراکین نے اپنے جی ڈی پی کا دو فیصد دفاع پر خرچ کرنے میں بہت کم دلچسپی لی جیسا کہ نیٹو معاہدے میں لازم قرار دیا گیا ہے اگرچہ امریکہ نے اپنے طور پر دفاع میں زیادہ سرمایہ کاری جاری رکھی ہوئی ہے لیکن یورپی ممالک عوام کی فلاح پر زیادہ خرچ کر رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کی یورپ ایک مشترکہ فلاحی ریاست کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے۔ اِس مقصد کے لئے اُن کے ہاں تعلیم‘ بنیادی سہولیات کی فراہمی اور صحت کی دیکھ بھال جیسے امور پر زیادہ سرمایہ کاری کی جا رہی ہے جبکہ امریکہ ریاست کے فلاحی تصور سے بہت دور ہے۔فروری دوہزاربائیس میں روسی فوج نے یوکرین پر حملہ کیا۔ اگرچہ روس سال دوہزارچودہ سے خود مختار یوکرین کے علاقے پر حملے کر رہا تھا لیکن مغرب ممالک نے اسے نظرانداز کیا اور اِسے معمولی دراندازی کے طور پر دیکھا گیا لیکن اب یورپ کے لئے روسی حملہ نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ امریکہ نے یوکرین کو فوجی امداد کی مد میں بڑی رقم کی منظوری دے رکھی ہے جبکہ جرمنی کے چانسلر اولاف شولز نے جرمنی کے دفاعی اخراجات میں مزید ایک سو ارب یورو کا اعلان کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی بڑا ملک ممکنہ مخالفین کے خطرات کو مزید نظر انداز نہیں کر سکتا۔ یوکرین پر روسی حملے نے عالمی اتحادوں کو بھی تیزی سے تبدیل کیا ہے۔ امریکہ نے روسی معیشت پر بھاری پابندیاں عائد کی ہیں‘ اس امید کے ساتھ کہ وہ روس کی معیشت کو مفلوج کردے گا لیکن مغرب کے لئے یہ صورتحال مایوسی کی بات ہے کیونکہ یورپ سمیت دنیا کے بہت سے ممالک روسی تیل اور گیس پر انحصار کرتے ہیں جبکہ دنیا یوکرین سے اناج اور کھاد خریدتی ہے۔ روس یوکرین جنگ کی وجہ سے تیل‘ اجناس اور کھادیں مہنگی ہوئی ہیں۔ اِس جنگ نے قریبی اور دور دراز کے ممالک کو یکساں متاثر کیا ہے اگرچہ یورپی ممالک کے توانائی کی زیادہ قیمتیں بڑا مسئلہ نہیں لیکن اُنہیں زیادہ نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک روس کی مجبوری سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور سستے تیل و اجناس کی خریداری کر رہے ہیں۔ بھارت نے امریکی قیادت میں روسی توانائی پر عائد پابندیوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے جس کا فائدہ روس کو ہوا ہے‘ ٹیکنالوجی کے ارب پتیوں کی چمک دمک اور منافع کم ہو رہا ہے کیونکہ کاروباری سرگرمیاں متاثر ہیں۔ فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کو معلوم ہوا ہے کہ ’میٹورس‘ نامی تصور شاید اُن کی خواہشات کے مطابق کامیاب نہ ہو۔ ٹیسلا کے مالک ایلون مسک نے ٹویٹر کو 44ارب ڈالر میں خریدا اور جلد ہی اُنہیں بھی معلوم ہوا ہے کہ ایک عالمی سوشل میڈیا کمپنی کا انتظام چلانا خلا میں راکٹ فائر کرنے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک بڑے کرپٹو ایکسچینج کے خاتمے نے عالمی سطح پر معاشی بدحالی اور قیاس آرائیوں میں اضافہ کیا ہے۔دنیا 2023ء میں قدم رکھ چکی ہے لیکن اِسے 2022ء میں پیدا ہوئے بحرانوں کا سامنا ہے جو شاید آئندہ کئی برس تک برداشت کرنا پڑیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: سیّد قیصر شریف۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)