جنوبی ایشیا: بڑی طاقتیں‘ بڑی ذمہ داریاں 

دنیا کی سپر پاورز کے آپسی مقابلے کے اثرات جنوبی ایشیائی خطے سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں دیکھے جا سکتے ہیں اگرچہ چین اور امریکہ دونوں چھوٹے جنوبی ایشیائی ممالک کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان دونوں بڑی طاقتوں کے مابین تناؤ نے پہلے سے ہی کشیدہ پاکستان و بھارت کے تناؤ میں مزید اضافہ بھی کیا ہے۔ چین اور امریکہ ایک دوسرے پر اپنی تجارتی بالادستی قائم کرنے اور ایک دوسرے کے مخالفانہ مؤقف کا جواب دینے میں مصروف ہیں اور انہیں بڑی طاقت ہونے کے ساتھ جڑی اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں چینی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے بھارت کی حمایت کی ضرورت اب ایک روایتی جنگ بن گئی ہے تاہم دنیا پہلے سے زیادہ خطرناک جگہ ہے کیونکہ یہاں کی بڑی طاقتیں مجموعی طور پر ہر سال اپنے دفاع پر کھربوں ڈالر خرچ کر رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ علاقائی تنازعات حل کرنے میں بہت کم دلچسپی لی جا رہی ہے۔ امریکی میرین کور نامی یونیورسٹی میں مڈل ایسٹ اسٹڈیز پروگرام کے زیر اہتمام ایک حالیہ گفتگو کے دوران‘ راقم الحروف نے جنوبی ایشیا میں چین کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے کم محاذ آرائی کے مؤقف کی وکالت کی اگرچہ بھارت حالیہ چند برسوں میں پاکستان کے مقابلے میں نمایاں طور پر خوشحال بننے میں کامیاب رہا ہے لیکن یہ اب بھی چین کی معاشی ترقی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مزید برآں بھارت کو ’کواڈ‘ جیسے سکیورٹی انتظامات میں پھنسانے اور بھارتی صلاحیتوں کو بڑھانے پر امریکہ کا اصرار پاکستان کے دفاع کے عدم تحفظ میں اضافے کا باعث بنا ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان چین پر زیادہ انحصار کرنے پر مجبور ہے۔ چین اور پاکستان کے تعلقات دراصل چین کے بھارت کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہونے کے بعد قائم ہوئے تھے‘ جس کے نتیجے میں 1962ء میں ایک مختصر سی جنگ ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے چین نے پاکستان کو فوجی اور سفارتی مدد فراہم کی تاکہ ایک دوسرے سے کہیں زیادہ بڑے حریف کے خلاف اسٹریٹجک توازن برقرار رکھا جاسکے تاہم گزشتہ چند برس کے دوران چین اور پاکستان نے ’سی پیک‘ نامی تجارتی راہداری کے ذریعے اقتصادی تعاون شروع کرنے کے لئے اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کیا ہے۔ اس کے برعکس سرد جنگ کے دوران امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تاریخی طور پر قریبی تعلقات رہے اور نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملے کے بعد اس نے ایک بار پھر پاکستان پر انحصار کیا۔ اس کے باوجود یہ دوطرفہ تعلقات کشیدہ ہیں۔ ماضی میں امریکہ نے بھارت اور پاکستان کے درمیان غیر جانبدار ثالث بننے کی کوشش کی تھی لیکن حال ہی میں اس نے بھارت کو زیادہ قابل قدر اتحادی کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا ہے تاکہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکا جا سکے۔ بھارت پاکستان کے لئے چین کی حمایت پر ناراض ہے وہیں چین بھی امریکہ کے ساتھ بھارت کے بڑھتے ہوئے اتحاد سے خوش نہیں۔ یہ صورتحال اسلحے کی دوڑ کو ہوا دے رہی ہے اور پہلے سے ہی کشیدہ خطے میں عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے۔ اس کے باوجود امریکہ کو بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات پر حد سے زیادہ بھروسہ ہے۔ امریکہ کو امید ہے کہ بھارت جنوبی ایشیا کی چھوٹی ریاستوں کو چینی اثر و رسوخ سے دور رکھنے میں کامیاب رہے گا۔ اس کے باوجود مودی حکومت کے ہندوتوا نظریے کی وجہ سے بھارت کی اپنی جمہوری ساکھ دباؤ کا شکار ہے‘ جس کی وجہ سے مسلم اکثریتی آبادی والے صوبوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں۔امریکہ کو جنوبی ایشیا میں چینی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے مزید تخلیقی حکمت عملی اور زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ پاکستان شاید واحد علاقائی ملک ہے جو ممکنہ طور پر چین اور امریکہ دونوں کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو متوازن رکھ سکتا ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان بڑی طاقتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کے مواقع بھی پیش کرسکتا ہے۔ اِس صورتحال میں پاکستان چاہتا ہے کہ امریکہ اس کے بڑے پیمانے پر سکیورٹی کے غلبے اور لین دین کے تعلقات کا دائرہ وسیع کرے تاکہ پاکستان اپنی ضروریات کے لئے چین پر مکمل انحصار نہ کرے۔ پاکستانی حکام کی جانب سے امریکہ کے حالیہ دوروں کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور مرکزی دھارے کے سیاست دان امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی چاہتے ہیں‘ جس پر سابق وزیر اعظم کی جانب سے امریکہ کی حمایت یافتہ بغاوت کے الزامات پر زور دیا گیا ہے تاکہ انہیں اقتدار سے بے دخل کیا جا سکے۔ دوطرفہ تعاون کی بحالی باہمی دلچسپی کا باعث بن سکتی ہے چاہے آئندہ انتخابات کے بعد کوئی بھی سیاسی جماعت اقتدار میں آجائے۔ پاکستان کے لئے مالی اور تکنیکی امداد بڑھانے کے علاؤہ امریکہ خطے میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک وسیع تر علاقائی اتحاد کی حمایت کر سکتا ہے۔ اس خطرناک جہادی نیٹ ورک کو افغانستان اور اس کے سرحد پار کے علاقوں میں مزید پھیلنے سے روکنے کے لئے اس طرح کا تعاون ضروری ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: سید ایم علی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)