حقیقت یہ ہے کہ آن لائن اپنی اور اپنے بچوں کی تصاویر پوسٹ کرنے کے منفی اثرات سے کم لوگ ہی واقف ہوتے ہیں۔آن لائن دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ جب ایک بار کوئی تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوجائے تو پھر وہ اس شخص کی نہیں رہتی جس نے اسے پوسٹ کیا ہوتا ہے۔ یہ ایک خطرناک بات ہوسکتی ہے خاص طور پر کہ جب آپ کو معلوم ہی نہ ہو کہ یہ تصاویر کون اور کس مقصد کے لیے استعمال کرے گا۔عموما یہ سمجھا جاتا ہے کہ پرائیویسی سیٹنگز سخت کرنے سے تصاویر محفوظ ہوجاتی ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ انٹرنیٹ پر کوئی چیز نجی نہیں ہوتی۔ آپ کی پرائیویسی سیٹنگز کتنی ہی سخت کیوں نہ ہوں آپ کی پروفائل پھر بھی ہیک ہوسکتی ہے۔اگر آپ کی پروفائل محفوظ بھی ہے تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ آپ کے دوست کی پروفائل محفوظ نہ ہو۔ اس کے علاوہ کوئی بھی فرد جو آپ کی تصاویر تک رسائی رکھتا ہو وہ غیر محفوظ ہوسکتا ہے اور اس طرح آپ کی تصاویر بھی دنیا کے سامنے آسکتی ہیں۔صرف یہی نہیں ہے کہ جو تصاویر طویل مدت تک انٹرنیٹ پر رہیں ان کے غلط استعمال کا ہی خطرہ ہوتا ہے بلکہ کچھ عرصے کے لیے اور انسٹاگرام یا سنیپ چیٹ پر محدود افراد کے دیکھنے کے لیے اپلوڈ کی گئی تصاویر بھی محفوظ نہیں ہوتیں۔ لوگ ان تصاویر کے سکرین شاٹ لے کر انہیں اپنے کمپیوٹر میں محفوظ کرسکتے ہیں یوں اگر ان کے کپمیوٹر سے کسی قسم کی ڈیٹا بریچ ہوتی ہے تو تمام مواد انٹرنیٹ بشمول ڈارک ویب پر پھیل سکتا ہے۔تو ایسی صورتحال میں بچے کی آن لائن حفاظت کو کیسے ممکن بنایا جائے؟ ماہرین کے مطابق اپنے بچے کو محفوظ رکھنے کے کوئی طے شدہ طریقہ کار نہیں ہیں۔ اگر آپ کسی اور کی تصویر پوسٹ کررہے ہوں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کی یا ان کے والدین کی اجازت لیں۔ یہ تجویز بھی دی جاتی ہے کہ بچوں کی حفاظت کے پیش نظر سکول یونیفارم میں ان کی تصویر اپلوڈ نہ کی جائے۔ احتیاط کا تقاضہ ہے کہ اکیلے بچے کی تصویر کی جگہ بچوں کی گروپ فوٹو اپلوڈ کی جائے یا پھر بچوں کے چہرے چھپا دئیے جائیں۔انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ پرائیویسی میں دخل اندازی سے بچنے کا کوئی فول پروف طریقہ نہیں ہے اس وجہ سے آن لائن اپلوڈ کی گئی تصاویر کی ہر دفعہ حفاظت یقینی نہیں بنائی جاسکتی۔لوگ کسی بچے کی تصویر اپلوڈ کرنے سے قبل شاید ہی کبھی اس سے اجازت لیتے ہیں۔ ایک کلینیکل سائیکالوجسٹ اور ٹرینر کا کہنا ہے کہ بچوں کی تصاویر قسم قسم کے حالات میں کھینچی جاتی ہیں اور جب انہیں آن لائن پوسٹ کیا جاتا ہے تو عموماً بچے اس سے شرمندہ ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ایسی صورتحال میں کہ جب وہ تصویر اچھی نہ ہو یا اس میں کسی ایسی چیز کا اظہار ہورہا ہو جس سے وہ مطمئن نہ ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ پرائیویسی اور اجازت کے حوالے سے بچے کا حق بہت اہم ہے۔ بچوں کی رائے کو بھی اہمیت دینی چاہئے، ایسے بہت سے واقعات ہیں جن میں تصاویر کا غلط استعمال کیا گیا،پریوینٹیشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ، 2016 میں تصاویر کے غلط استعمال کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس قسم کی سرگرمی کے خلاف ایف آئی اے میں شکایت کی جاسکتی ہے۔ اگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر آپ کی پرائیویسی کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو اس بارے میں شکایت درج کروانے کے حوالے سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا طریقہ کار ہوتا ہے۔ ایف آئی اے میں شکایت درج کروانے کے علاوہ لوگ سائبر پرائیویسی کے حوالے سے کام کرنے والے اداروں سے بھی مدد حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیجیٹل رائٹس فانڈیشن کی بھی ایک ہیلپ لائن ہے جس کے ذریعے انٹرنیٹ صارفین اپنے خدشات کا ظہار کرسکتے ہیں اور کسی معاملے پر تجاویز حاصل کرسکتے ہیں۔آج کے دور میں موبائل اور انٹرنیٹ تک رسائی بہت آسان ہے اور اکثر بچے بغیر کچھ سوچے سمجھے اپنی تصاویر کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپلوڈ کردیتے ہیں۔ ڈاکٹر عائشہ بیدار کا کہنا ہے کہ ایک بچے کی زندگی کا ایک بڑا حصہ آن لائن گزرتا ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ جو کچھ ہم آن لائن پوسٹ کرتے ہیں وہ ہمارے خلاف بھی استعمال ہوسکتا ہے (بشکریہ ڈان، تحریر:رضوانہ نقوی، ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام