کساد کا شکار دنیا

سال دوہزاربائیس پاکستان سمیت عالمی معیشت کے لئے مشکل ترین سال تھا۔ یوکرین کی جنگ اور اس کے نتیجے میں ایک دہائی سے زیادہ خوراک اور توانائی کی افراط زر‘ انتہائی موسمی حالات و واقعات اور امریکہ و چین کے بگڑتے ہوئے تعلقات نے دنیا کی معاشی پریشانیوں میں اضافہ کیا۔ امریکہ اور یورپی یونین میں  سود کی شرح‘ جو افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لئے عائد کی گئی تھی‘ اقتصادی ترقی کو سست کر رہے ہیں۔ جرمنی‘ برطانیہ اور بہت سے دیگر یورپی ممالک اس سال کساد کا شکار ہو جائیں گے۔ امریکہ‘ یورپی یونین اور چین میں بیک وقت معاشی سست روی باقی دنیا کو بھی متاثر کرے گی اور پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ سال 2023ء میں پاکستان کی معیشت کس قسم کی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی؟ اس سوال کا جواب دینے کے لئے کسی کو دانشور ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ تیل برآمد کرنے والے خلیجی ممالک کے علاوہ دنیا بھر کی معیشتیں مشکلات کا شکار ہیں۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے خبردار کیا ہے کہ عالمی مندی کچھ وقت رہے گی تاہم یہ کچھ وقت کتنا طویل ہو گا اِس کے بارے میں کچھ  بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ سال 2023ء میں دنیا کی ایک تہائی معیشت اور یورپی یونین کا نصف حصہ مندی کا شکار ہو جائے گا۔ یہ فرض کرنا غلط نہیں ہوگا کہ زیادہ تر عالمی معیشتوں کی طرح پاکستان بھی دوہزارتئیس میں معاشی بحران کا شکار رہے گا۔ اس افراتفری کی شدت کا تعین جاری عالمی رجحانات اور بعض عوامل یا گیم چینجرز کی موجودگی (یا غیر موجودگی) سے معلوم کئے جا سکتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو کس طرح متاثر کرتے ہیں۔  سب سے پہلے جاری رجحانات پر ایک نظر ڈالیں یوکرائن کی جنگ اپنے اختتام کے قریب نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر روس یوکرائن جنگ جلد ختم ہو بھی جاتی ہے تو جنگ کے بعد کی دنیا نئی جیو پولیٹیکل صف بندیوں کا مشاہدہ کیا جائے گا۔ تیسرا اگرچہ گلوبل نارتھ میں سخت مانیٹری پالیسیاں (زیادہ شرح سود) معیشتوں (کساد) کو سست کردیں گی اور ترقی یافتہ دنیا میں افراط زر پر قابو پائیں گی‘ ترقی پذیر ممالک کچھ اور وقت کے لئے افراط زر سے متاثر رہیں گے اور آخر میں امیر ممالک میں اعلی سود کی شرح سرمایہ کاری کے بہاؤ اور ترقی پذیر ممالک میں مقامی کرنسیوں کی قیمت پر منفی اثر ڈالے گی۔ یہ رجحانات آئی ایم ایف کے عالمی مندی سے متعلق الرٹ کی بنیاد ہیں۔ ان رجحانات کے اثرات کچھ گیم چینجرز کی موجودگی (یا غیر موجودگی) سے متاثر ہوں گے۔ چین کا آٹھ جنوری سے دنیا کے لئے دوبارہ کھولنا (بیرونی دنیا سے الگ تھلگ ایک ہزار سولہ دن گزارنے کے بعد) جو اس کی صفر کوویڈ پالیسی کے خاتمے کی نشاندہی کرتا ہے سال 2023ء کا اب تک کا سب سے بڑا گیم چینجر ہے۔ عالمی مندی کے دوران توانائی کی طلب اور قیمتیں بھی اہم گیم چینجر ہیں۔ شدید موسمی واقعات (موسمیاتی تبدیلی)‘ دہشت گردوں کے نئے حملوں اور قومی سلامتی کی صورتحال نیز ملک میں سیاسی استحکام پاکستان کے لئے گیم چینجرز ہیں۔ زیادہ تر دفاعی تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ روسی حملے کے خلاف یوکرین کی بے مثال مزاحمت روس کو موسم بہار میں یوکرین پر تازہ حملوں پر اُکسائے گی۔ روس یوکرین کی معیشت کو تباہ کرنے‘ سویلین انفراسٹرکچر پر حملوں کے ذریعے اس کے حوصلے پست کرنے اور اپنے شراکت داروں کو ختم کرنے کے لئے جنگ کو طویل عرصے تک طول دینے کی کوشش کرے گا لیکن یوکرین اس وقت تک امریکہ سے پیٹریاٹ میزائل دفاعی نظام حاصل کر چکا ہوگا اور اسے اپنی مزاحمت کو برقرار رکھنے کے لئے استعمال کرسکتا ہے۔ سب سے بہتر صورت حال مذاکرات کے ذریعے جنگ بندی کی ہے‘ جو روس اور یورپی اتحادیوں دونوں کے مفاد میں ہے۔ بدترین صورت حال میں روس نیٹو کے صبر کا امتحان لیتے ہوئے جوہری ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔ سال دوہزارتئیس میں ان خوفناک واقعات کا انکشاف پہلے سے ہی گرتی ہوئی عالمی معیشتوں کو مزید کمزور کردے گا‘ جس سے توانائی اور خوراک درآمد کرنے والے ممالک کی معاشی کمزوریوں میں اضافہ ہوگا۔ یوکرین میں جنگ کے انجام سے قطع نظر‘ ایک بات یقینی یہ ہے کہ مغرب اب روس پر اعتماد نہیں کرے گا۔ یورپ اور روس‘ یورپ اور چین‘ امریکہ اور چین کے درمیان اقتصادی علیحدگی تیزی سے ایک حقیقت بنتی جا رہی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد‘ جرمنی معاشی انحصار کے ذریعے تنازعات کو کم کرنے کا حامی ہے۔ جرمنی کے صدر فرینک والٹر شٹائن مائر نے حال ہی میں کہا تھا کہ جب سے دنیا بدل چکی ہے‘ ہمیں سوچنے کے پرانے طریقوں اور پرانی امیدوں کو ترک کر دینا چاہئے جن میں یہ خیال بھی شامل ہے کہ ”اقتصادی تبادلے سے سیاسی ہم آہنگی پیدا ہو گی“ شٹائن مائر کا یہ بھی خیال ہے کہ ”برلن کو ماضی سے سبق سیکھنا چاہئے اور نہ صرف روس بلکہ چین پر بھی یکطرفہ انحصار کم کرنا چاہئے“پاکستان نے اپنے قرضوں کا تیس فیصد چین اور تقریباً بیس فیصد سعودی عرب سے حاصل کر رکھا ہے۔ امریکہ پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور آئی ایم ایف کے فیصلہ ساز بورڈ پر سختی سے اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یورپی یونین کے ارکان سال دوہزارتئیس میں پاکستان کی ترجیحی تجارتی شراکت دار کی حیثیت کی تجدید کے بارے میں بھی فیصلہ کریں گے۔ اب تک پاکستان ان تمام بڑی جغرافیائی و اقتصادی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں درست توازن برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ تاہم ابھرتی ہوئی جیوپولیٹیکل صف بندیوں کا پاکستان پر نمایاں اثر پڑے گا ”معمول کے مطابق کاروبار“ کے منظر نامے میں اگر پاکستان کو کسی ایک فریق کو مجبوراً منتخب کرنا پڑے تو پاکستان کا انتخاب وہی ہو گا جو اِسے ڈیفالٹ (دیوالیہ) ہونے سے بچائے تاہم ایسی کسی صورت میں پاکستان کسی بھی اتحادی کو کھونے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ امریکہ میں شرح سود اور ڈالر کی قدر میں اضافہ‘ اہم معاشی شراکت دار ممالک میں مندی کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑے گا اور پاکستان کے لئے قرضوں کی ادائیگی کی لاگت میں اضافے کا امکان ہے۔ اِسی طرح عالمی رجحانات کے تناظر میں سال 2023ء میں پاکستان کی معیشت کی تصویر زیادہ صحت مند نہیں تاہم کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اور اِس کی وجہ سے رونما ہونے والے واقعات پاکستان کی معیشت کے لئے گیم چینجر ہیں۔  (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عابد قیوم سلہری۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)۔