نجکاری: نیو لبرل اقتصادی اصلاحات

مالیاتی پنڈت نیو لبرل ایجنڈے‘ خاص طور پر ریاستی ملکیت والے اداروں کی نجکاری کی وکالت کر رہے ہیں لیکن اِس سلسلے میں نصف سچائیوں پر مبنی جو حقائق پیش کئے جا رہے ہیں وہ سوفیصد درست بھی نہیں ہیں اور چند حقائق کو مسخ کر کے بھی پیش کیا جاتا ہے جبکہ ایسی معلومات کو چھپاتے ہیں جو ان اداروں کی نجکاری کا جواز پیش کرنے کے لئے سرکاری شعبے کے اداروں کی ناقص کارکردگی کی وضاحت کرسکتی ہیں۔ جب یہ ماہرین ترقی اور معاشی خوشحالی کی بات کرتے ہیں تو وہ جغرافیائی و سیاسی عوامل کو نظر انداز کرتے ہوئے سیاسی صورتحال پر خاطرخواہ توجہ دیئے بغیر صرف معاشی نمو پر کا بیان کرتے ہیں۔ اس طرح‘ وہ اپنا مقدمہ پیش کرنے کے لئے غلط نتائج اخذ کرتے ہیں لیکن اس پر بحث کرنے سے پہلے مندرجہ ذیل خبروں کو اُجاگر کرنا ضروری ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق قتل و غارت گری انسانوں کے لئے دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ ہے۔ سال 2017ء میں دنیا بھر میں تقریبا پانچ لاکھ افراد ہلاک ہوئے‘ جو فعال مسلح تنازعات میں ہلاک ہونے والے 89ہزار اور دہشت گردی کے حملوں میں ہلاک ہونے والے 19 ہزار سے تعداد میں کہیں گنا زیادہ ہیں! اقوام متحدہ کو خدشہ ہے کہ اگر قتل کی شرح چار فیصد کے تناسب سے سالانہ بڑھتی رہی تو پائیدار ترقیاتی سولہ اہداف (ایس ڈی جی 16)‘ جو دنیا بھر میں ہر طرح کے تشدد اور متعلقہ اموات کی شرح کو نمایاں طور پر کم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے سال 2030ء تک حاصل نہیں ہو پائیں گے۔ اقوام متحدہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ منظم جرائم اور اجتماعی تشدد مختلف خطوں میں بڑے پیمانے پر مختلف ہوتے ہیں۔ براعظم امریکہ کے ممالک میں وسیع مارجن سے بدترین قتل کی شرح ہے‘ جو عالمی کل کا سینتیس فیصد ہے۔ یہ کسی ایک خطے سے متعلق ہے جہاں دنیا کی آبادی کا صرف 13فیصد حصہ آباد ہے۔ لاطینی امریکہ اور کیریبین میں قتل عام کے متاثرین کی شرح سب سے زیادہ ہے اور یہ سال 2020ء میں 21.20 فیصد رہی۔ مذکورہ خطے کے چار سے زیادہ ممالک دنیا کی سب سے زیادہ جرائم کی شرح کے ساتھ سرفہرست دس ریاستوں میں شامل ہیں لیکن اِن اعداد و شمار کو یہاں شامل کرنے کا تعلق بظاہر نجکاری اور نیو لبرل ازم سے نہیں لگتا؟ اس کا جواب واضح ہے کہ مذکورہ خطہ سب سے زیادہ لبرل اقتصادی زونوں میں سے ایک تھا جہاں آزاد منڈی کی معیشت کے قوانین پر عمل کیا جاتا تھا۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں تقریبا ہر چیز کو مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تھا‘ جس نے ممالک کو افراتفری اور معاشی افراتفری میں ڈال دیا۔ یہ خطہ تاریخی طور پر تمام سرمایہ دارانہ ممالک کے لئے ایک میدان جنگ رہا جہاں غلامی پروان چڑھی جس نے یورپ اور شمالی امریکہ کو مالا مال کیا۔ جو لوگ نجکاری کا جواز پیش کر رہے ہیں انہیں لاطینی امریکہ‘ کیریبین اور برازیل میں متعارف کرائی گئی نیو لبرل اقتصادی اصلاحات کی وجہ سے ہونے والی تباہی کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ سوشل پینوراما 2022ء کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 201 ملین افراد  غربت زدہ ہیں‘ ان میں سے 82ملین (اکتیس فیصد) انتہائی غربت کی حالت میں رہتے ہیں۔سال 2012ء میں شائع ہونے والی ایک کتاب کے مطابق لاطینی امریکہ اور کیریبین میں ہر تین میں سے ایک خاندان یا پانچ کروڑ نوے لاکھ افراد ایسے گھروں میں رہتے ہیں جو یا تو رہائش کے لئے نامناسب ہیں یا ناقص مواد سے تعمیر کئے گئے ہیں اور بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ لاطینی امریکہ کے شہروں میں ہر سال پیدا ہونے والے تیس لاکھ گھرانوں میں سے بیس لاکھ افراد غیر رسمی بستیوں جیسے کچی آبادیوں میں آباد ہونے پر مجبور ہیں کیونکہ مناسب اور سستی رہائش کی ناکافی فراہمی ہے۔ یونیسف کے مطابق لاطینی امریکہ میں 90ملین بچے غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عالمی بینک کا اندازہ ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر کے تمام بچوں میں سے آٹھ سے بارہ فیصد ہونڈوراس اور نکاراگوا میں سڑکوں پر کام کر رہے ہیں یا رہ رہے ہیں۔ لاطینی امریکہ اور مجموعی طور پر کیریبین میں‘ پانچ سال سے کم عمر کے پانچ لاکھ بچے ہر سال قابل روک تھام کی بیماریوں کی وجہ سے مر جاتے ہیں اور پانچ سال سے کم عمر کے تقریبا چار ملین بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔  ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ جب 1982ء میں اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام متعارف کرایا گیا تھا اور پھر 1986ء میں بھی اِسے دوبارہ متعارف کرایا گیا تو پاکستان کا بیرونی قرض کم تھا۔ آج یہ قرض ایک سو ارب سے زیادہ ہو چکا ہے۔ 167 سے زیادہ سرکاری اداروں کی نجکاری کی جا چکی ہے لیکن اس کے باوجود قرضوں کا انبار اب بھی زیادہ بلکہ ہر سال پہلے سے زیادہ ہو ہوتا جا رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ 1970ء اور 1980ء کی دہائی کے دوران سرکاری اداروں کو نقصان کیوں نہیں اٹھانا پڑا؟ تمام سرکاری اداروں کی اپنی رہائشی کالونیاں‘ ہسپتال اور سکول و کالجز تھے۔ وہ اضافی منافع کما رہے تھے ۔ معاملات اس وقت خراب ہوگئے جب سوویت یونین کی بار بار درخواستوں کے باوجود ملک کی سب سے بڑی سٹیل مل کی پیداواری صلاحیت بڑھانے سے انکار کر دیاگیا تھا۔ اگر اس صلاحیت کو بڑھا کر ایک دن میں دو ملین ٹن کر دیا جاتا تو آج یہ مل منافع کما رہی ہوتی اور ملک کی خوشحالی میں بھی اپنا حصہ ڈال رہی ہوتی۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: عبدالستار۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)