تیز رفتار سماجی و اقتصادی ترقی اب صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب قومی جدت طرازی کی پالیسیوں کو ہائی ٹیک مصنوعات کی ترقی اور برآمد پر مرکوز کیا جائے۔ پاکستان کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ہم بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر اپنا طرز عمل بھی تبدیل کریں اور اپنی حقیقی دولت یعنی نوجوان و ذہین اور محنت کش افرادی قوت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ ہماری توجہ کے کلیدی شعبوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ اگلی نسل کے جینومکس‘ نئے مواد‘ توانائی‘ تجدیدی ادویات‘ معدنیات اور جدید خطور پر زراعت شامل ہونا چاہئے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلی جنس) پہلے ہی مختلف شعبوں پر اثرات مرتب کر رہی ہے۔ یہ طبی تشخیص‘ مالیاتی پیش گوئیوں‘ خود کار ڈرائیونگ وغیرہ میں استعمال ہو رہی ہے۔ اندازہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کی مارکیٹ کا حجم پانچ سالوں کے اندر تقریبا سولہ کھرب ڈالر ہوگا اور ترقی یافتہ ممالک مصنوعی ذہانت کے شعبے میں ترجیحاً سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ توقع ہے کہ نئی آنے والے 6جی نیٹ ورکس موجودہ (فور جی یا فائیو جی) ٹیکنالوجیز کے مقابلے میں بہت تیز ہوں گے اور ممکنہ طور پر ورچوئل رئیلٹی‘ فوری مواصلات‘ وسیع پیمانے پر مصنوعی ذہانت اور آئی او ٹی جیسی ایپلی کیشنز کے استعمال کو عام کریں گے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک اور تیزی سے اُبھرتا ہوا شعبہ انٹرنیٹ آف تھنگز (آئی او ٹی) ہے۔ یہ منسلک آلات کا نیٹ ورک ہے جو ایک ڈیٹا مواصلات اور اِس کی بانٹ کر سکتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی نے پہلے ہی نقل و حمل‘ مینوفیکچرنگ اور صحت کی دیکھ بھال جیسی بہت سی صنعتوں کو متاثر کرنا شروع کردیا ہے۔ آئی او ٹی سے چلنے والے آلات ریئل ٹائم میں گاڑیوں کو ٹریک کرتے ہیں‘ مینوفیکچرنگ کے عمل کی نگرانی اور کنٹرول کر سکتے ہیں اور طبی سہولیات کی فراہمی یا اِن سہولیات کی فراہمی کی فاصلے سے نگرانی کر سکتے ہیں۔ موبائل نیٹ ورکس کی آنے والی نسل فائیو جی اور 6جی ٹیکنالوجیز پر منحصر ہوگی۔ وہ کم تاخیر کے ساتھ بہت تیز انٹرنیٹ کی رفتار فراہم کرے گی۔ اس سے ٹیلی کمیونیکیشن‘ گیمنگ‘ ورچوئل رئیلٹی اور ریموٹ کنٹرول سرجری سمیت بہت سے کام کاجوں پر اثر پڑے گا۔ ایک اور تیزی سے ترقی کرنے والا شعبہ جینومکس ہے۔ یہ ادویات میں درست دوا تیار کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے جو فرد کے جینیاتی میک اپ پر غور کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں کینسر جیسی مختلف بیماریوں کا علاج ممکن ہو سکتا ہے۔ اس طرح کینسر کے مریضوں میں انفرادی تغیرات کی شناخت کی جاسکتی ہے اور پھر ان مریضوں کی مخصوص تبدیلیوں کو نشانہ بنانے کے لئے ادویات دی جا سکتی ہیں۔ جین ایڈیٹنگ ٹولز کی آمد سے بیماری پیدا کرنے والے جینز کی شناخت ممکن ہو جائے گی اور اس طرح کی تکنیک کا استعمال جینیاتی بیماریوں کم کرنے میں مدد کرے گا۔ محققین نے زراعت میں جینومکس کا استعمال کرتے ہوئے ایسی جینز کی شناخت کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے جو فصل میں کسی بیماری کے خلاف مزاحمت پیدا کرتی ہے یا اُس کے ذریعے سے زیادہ پیداوار (مطلوبہ نتائج) حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اِس طریقے سے جینیاتی طور پر تبدیل فصلیں حاصل کرنے میں پیشرفت ہوئی ہے جو ماحولیاتی تناؤ میں بہتر کام کر سکتی ہیں اور کیڑوں مکوڑوں کے خلاف مزاحمت بھی رکھتی ہیں۔ جینومکس نے مویشیوں کی افزائش نسل کو بھی بہتر بنایا ہے‘ اِس کی مدد سے گائے زیادہ دودھ دیتی ہے‘ تیزی سے بڑھتی ہیں اور بیماریوں کے خلاف مزاحمت رکھتی ہے۔ محققین نے انسانوں میں جینیاتی کمزوریوں کی بھی نشاندہی کی ہے جس کی وجہ سے یہ بعض بیماریوں کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ اِسی طرح ایک اور شعبہ تجدیدی ادویات کا ہے جہاں اینٹی ایجنگ مرکبات تیار کئے گئے ہیں جو عمر بڑھنے کے عمل کو سست کر سکتے ہیں۔ دل‘ پھیپھڑوں‘ گردوں اور آنکھوں کے امراض کے علاج کے لئے سٹیم سیل ٹیکنالوجیز تیار کی جا رہی ہیں۔ سٹیم سیل ریسرچ پر توجہ مرکوز کرنے والی ایک بہترین لیبارٹری ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ موجود ہے جو پاکستان کے اہم تحقیقی ادارے، انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز (آئی سی سی بی ایس) جامعہ کراچی میں واقع ہے۔کاربن فائبر اور سیرامکس ہوائی جہازوں اور خلائی کرافٹ میں وسیع پیمانے پر استعمال ہو رہے ہیں۔ تعمیراتی صنعت میں‘ کنکریٹ اور اِن کے مرکب استعمال ہو رہے ہیں کیونکہ یہ ڈھانچے کو بہتر طاقت اور استحکام دیتے ہیں۔ نینو ٹیکنالوجی بڑے پیمانے پر سامنے آئی ہے جو سمارٹ فونز اور لیپ ٹاپ جیسے آلات میں بہتری کا نتیجہ ہے اور اِس شعبے میں الیکٹرانکس کی صنعت میں گرافین کے ساتھ ساتھ کاربن نینو ٹیوب بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ ’آئی سی سی بی ایس‘ میں نینو ٹیکنالوجی ریسرچ کا بہترین مرکز لطیف ابراہیم جمال نینو ٹیکنالوجی سنٹر قائم ہے جو نینو فارماسیوٹیکلز میں اس وقت دستیاب ادویات کے مقابلے میں بہتر حیاتیاتی سرگرمی اور کم زہریلے پن جیسے امور پر اہم تحقیق کر رہا ہے۔
توجہ طلب ہے کہ مناسب طور پر تیار کردہ حکومتی پالیسیاں جدت طرازی اور معاشی ترقی کو فروغ دینے کی کلید ہیں۔ حکومت کو ایک ایسا ماحولیاتی نظام بنانے میں بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے جو جدت طرازی کے لئے سازگار ہو اور پیچیدہ بیوروکریٹک طریقہ کار ختم کرے۔ تحقیق اور ترقی کے لئے کاروباری اداروں کو ٹیکس مراعات اور گرانٹس پیش کرکے بھی جدت طرازی کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کا مستقبل اس طرح کے ترقی پذیر جدید شعبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری میں مضمر ہے۔ ہمیں تعلیم‘ سائنس‘ ٹیکنالوجی‘ جدت طرازی اور کمرشلائزیشن کو اولین ترجیح دینی چاہئے تاکہ آئندہ دہائی میں اپنی برآمدات کو موجودہ تیس ارب ڈالر سے بڑھا کر ایک سو ارب ڈالر کیا جا سکے۔ اس کے لئے ہمیں دور اندیش اور ٹیکنالوجی کو ٹھوس بنیادوں پر ترقی دینے پالیسی پر عمل پیرا ہونا چاہئے تاکہ مستقبل کی ضروریات اور چیلنجوں کو بہتر طریقے سے سمجھتے ہوئے ٹیکنالوجی پر مبنی علمی معیشت کو پروان چڑھا سکیں۔۔(بشکریہ: دی نیوز۔ترجمہ: ابوالحسن امام)