صاف ہوا کی ضرورت خبر نہیں ہے اور نہ ہی اس سے کوئی بے خبر رہ سکتا ہے۔ ہم برسوں سے جانتے ہیں کہ SARS-Cov-2 ہوا سے پھیلتا ہے، اور نامہ نگار برسوں سے انیسویں صدی کے لندن میں ہیضے کی کارآمد تاریخی تشبیہ کی طرف اشارہ کرتے رہے ہیں، جہاں جان اسنو نے یہ جان کر وبائی امراض کے شعبے کو جنم دیا کہ خطرہ آیا ہے۔ وینٹیلیشن کا عمل بھی وبائی امراض میں کمی کا باعث بن سکتا ہے اور اس کی عدم موجودگی مرض میں اضافے کا باعث۔ ٹھہری ہوئی یا نقصان دہ ہوا کو تبدیل کرنے کے لیے ایک بند علاقے میں تازہ ہوا لانا، یا ہوا سے آلودگیوں کو ہٹانا بہت ضروری ہے۔ یا اس قدر ہی ضروری ہے جیسے کہ نئے آئیڈیاز متعارف کرانا یا علاج کے ذریعے وباء پر قابو پانا، بحث کرنا یا کسی موضوع پر عوامی بیداری لانایہ سب ایک طرح سے وینٹیلیشن کا ہی ایک انداز ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر متوقع عمر میں تیزی سے کمی ہوتی جا رہی ہے اور ہمارے پاس اب بھی عالمی صحت کی دیکھ بھال نہیں ہے۔ دوسری طرف تلخ حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ عالمی حکمرانوں نے اس وبائی مرض کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا ہے جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ وہ ختم ہو گیا ہے، لیکن یہ اب بھی آس پاس موجود ہے اور اگر ایک ملک میں کمزور ہے تو دوسرے ملک میں یہ مرض زور پکڑتا جاتا ہے۔ بات صرف بیرونی ہوا کی نہیں بلکہ گھروں میں بھی صورتحال مختلف نہیں۔ہم میں سے باقی لوگوں کے پاس ہماری اندرونی ہوا میں کافی زہریلی چیزیں ہوتی ہیں۔ گیس کے ساتھ کھانا پکانے نے دل کھول کر ہمیں NO2، بینزین، اور باریک ذرات فراہم کیے ہیں، جن میں سے آخری ڈیزل ایندھن اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بھڑکنے والی جنگل کی آگ کے ذریعے بھی فراہم کی جاتی ہے۔ گھر، سکول، دفاتر، اور دیگر جگہیں ابھی خطرے سے خالی نہیں جہاں مولڈ، سیسہ، ریڈون، کیڑے مار ادویات اور دیگر کیمیائی مواد ماحول میں موجود رہتا ہے۔ ان میں سے اکثر آپ کو مار سکتے ہیں، حالانکہ SARS-Cov-2 آپ کو دوسروں کی نسبت زیادہ تیزی سے مار سکتا ہے۔پچھلے سال امریکہ میں اندرونی ہوا کے معیار کو بہتر بنانے پر ایک سربراہ اجلاس کا انعقاد کیا جس میں تنظیموں کو رضاکارانہ طور پر اندرونی ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے کہا گیا تھا، اورترقی پذیر ممالک کو اس ضمن میں فنڈز فراہم کرنے کی طرف توجہ مبذول کروائی گئی تھی خاص طور پر اولین ترجیح میں وہاں پر سکولوں کو اس حوالے سے تیار کرنا ہے۔سربراہی اجلاس اس تجویز پر ختم ہوا کہ خالی جگہوں پر فی گھنٹہ ہوا کی 4-6 کی نسبت سے ہوا کی تبدیلی ضروری ہے۔ یہ بہت سی جگہوں کے لیے بہتری کا امکان ہے، لیکن غیر چیک شدہ SARS-Cov-2 کے پھیلتے خطرے سے ہمیں بچانے کے لئے اب بھی ناکافی ہے۔ فضائی انفیکشن کا خاتمہ تب ہی ممکن ہے جب ہر جگہ پر خاص کر ایسے مقامات جو کھلے نہیں یعنی گھر یادفاتر اور سکول وغیرہ وہاں پر ہوا کی تبدیلی یعنی ونٹیلیشن کا انتظام بہت ضروری ہے۔ جہاں تک عالمی معیشت کا تعلق ہے توواضح طور پر، بڑے سٹاک ہولڈرز اور سی ای او معیشت کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بیماری کے خطرات کو کم سے کم کرنے اور عوام کو وبائی امراض سے پہلے کے اخراجات کی طرف واپس لے جانے کے لئے مہموں کو فنڈز فراہم کیے ہیں۔ وہ ممکنہ طور پر گھبراہٹ اور منظم بڑے پیمانے پر کاروباری سرگرمیوں میں تعطل سے بھی بچنا چاہتے ہیں۔ لیکن نجکاری سے پیدا ہونے والی نئی منڈیوں میں پیسہ بھی کمانا ہے اور یقینا وہ عوامی نقصان کی زیادہپرواہ نہیں کرتے۔اس ضمن میں ماحولیاتی آلودگی کے پھیلنے کا عمل بھی جاری ہے اور اسے روکنے کیلئے خاطر خواہ اقدامات کی بھی کمی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ ایک وباء کے بعد دوسری وباء کا خطرہ عالمی منظر نامے پر منڈلاتا نظر آتا ہے۔اس بات کا یقین کرنے کے لئے مصنوعات کا معیار جو ہمیں صاف ہوا کے لیے فروخت کیا جا سکتا ہے زیادہ موثر نہیں رہے گا۔ وبائی مرض کے اوائل میں، وہ تنظیمیں جنہوں نے ہوا کو صاف کرکے صحیح کام کرنے کی کوشش کی تھی، بعض اوقات ایسی مصنوعات فروخت کی جاتی تھیں جو غیر موثر اور ممکنہ طور پر خطرناک تھیں جیسے کہ گلوبل پلازما سلوشنز جس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی تجویز سامنے آئی تھی۔اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ عالمی سطح پر ماحولیاتی اقدامات نا کافی ہیں اور اگر امریکہ جیسے ملک میں یہ حالت ہے کہ وہاں پر اندرونی مقامات یا ان ڈور ماحول صحت دوست نہیں تو پھر ترقی پذیر ممالک میں کیا صورتحال ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ ماحول کی صفائی یا ایسی مشینیں لگانا جو کسی بھی ان ڈور مقام کی ہوا کو صاف کریں مہنگا عمل ہے جسے نہ تو ہر کوئی برداشت کرسکتا ہے اور نہ ہی گھریلوصارفین اس کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ترقی پذیر ممالک میں تو بہت سے ادارے بھی اس مہنگے ترین عمل کو سر انجام دینے کے قابل نہیں ہیں۔ اور اگر بات کی جائے عام گھریلوصارفین کی اور وہ بھی ترقی پذیر دنیا میں تو یہاں پر بغیر کسی شک کے یہ کہنا درست ہے کہ یہ ایک ناقابل عمل منصوبہ ہوگا۔اس صورتحال میں بات صرف کورونا وبا تک محدود نہیں بلکہ اس کے بعد مستقبل میں بھی اگر کوئی مسئلہ درپیش ہو تو ہوا کی آلودگی بڑا مسئلہ بن سکتا ہے اور اسے حل کرنے کی طرف خاطر خواہ توجہ بھی نہیں دی جا رہی۔ یہ رویہ ان ڈرو ماحول یا ہوا کی خرابی کے سنگین مسئلے کو مزید گھمبیر بنا نے کا حقیقی خطرہ سامنے لاتا ہے۔(بشکریہ دی نیوز، تحریر:فرین مشیل، ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام