لیجنڈری خوشونت سنگھ

ایشیا کی معروف ادبی شخصیت‘ وکیل‘ مصنف‘ سفارت کار‘ صحافی اور سیاست دان ڈاکٹر خوشونت سنگھ (پیدائش 2 فروری 1915ء انتقال 20 مارچ 2014ء) پاکستان کے صوبہ پنجاب کے گاؤں ہڈالی میں پیدا ہوئے۔ اپنی 99 سالہ زندگی کے دوران انہوں نے عملی زندگی کے کئی شعبوں میں قابل ذکر کامیابیاں حاصل کیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور بھارت میں علمی و ادبی حلقے اُن کے یوم پیدائش کی مناسبت سے تقاریب کا انعقاد کر رہے ہیں۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے موقع پر‘ جو افسوسناک حالات پیش آئے اُن کی وجہ سے خشونت سنگھ کے خاندان کو بھی اپنی جنم بھومی (جائے پیدائش) سے مجبوراً نقل مکانی کرنا پڑی۔ اگرچہ وہ سرحد پار بھارت میں تھے لیکن انہوں نے ہمیشہ پاکستان کو اپنے دل میں رکھا اور ہر سال اپنے آبائی وطن (پاکستان) کا دورہ کرتے تھے۔ مختلف فورمز پر انہوں نے پاکستان کے ساتھ اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار کیا۔ اسی طرح ہمارے ملک میں ان کی مقبولیت اس سطح پر تھی کہ جب وہ یہاں آئے تو ٹیکسی ڈرائیوروں نے کرایہ نہیں لیا اور دکاندار اُن سے پیسے لینے سے انکار کر دیا کرتے تھے۔ خوشونت سنگھ کے دوستوں کے حلقے میں بانیئ پاکستان قائد اعظمؒ بھی شامل تھے جو اُن کی شادی کی تقریب کے مہمانوں میں شامل تھے۔ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم چاہتے تھے کہ خوشونت سنگھ کو لاہور ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا جائے۔ تاہم انہوں نے نقل مکانی کو ترجیح دی۔ سنگھ نے تقسیم ہند کے موقع پر خونریزی قریب سے دیکھی‘ جس کی منظرکشی انہوں نے 1956ء میں شائع ہونے والے اپنے مشہور ناول ”ٹرین ٹو پاکستان“ میں کی تھی۔ یہ کہانی اُس وقت کے ایک نو تشکیل شدہ ملک (پاکستان) کی طرف مسلمانوں کی ہجرت سے جڑے واقعات کا مجموعہ ہے جب انتہا پسندوں کے مسلمانوں کی ریل گاڑی پر حملہ کیا تھا اور ایک مقامی سکھ نے پاکستان جانے والے مسافروں کو بچانے کے لئے اپنی جان قربان کر دی۔ مذکورہ ناول نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دیئے اور اسے عالمی شہرت یافتہ مصنفین کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا۔ وہ یونیسیف‘ دفتر خارجہ‘ لندن میں انڈیا ہاؤس اور آل انڈیا ریڈیو سے بھی وابستہ رہے۔ وہ بھارت میں راجیہ سبھا کے رکن بھی رہے۔ اپنے والد اور بعد میں بیوی کے انتقال کے بعد وہ تنہائی کا شکار ہو گئے اور پڑھنے لکھنے میں پناہ لی۔ اخبار کے ساتھ ان کا رشتہ اتنا مضبوط تھا کہ ان کا کالم آخری سانس تک چھپتا رہا۔ وہ ہندوستان ٹائمز‘ یوجنا‘ السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا‘ اور نیشنل ہیرالڈ سمیت مختلف اخبارات سے وابستہ رہے۔ وہ انگریزی زبان کے مصنف تھے لیکن ان کے کالم اردو اخبارات میں بھی باقاعدگی سے شائع ہوتے رہے اور وہ اپنی تحریروں میں مرزا غالب اور علامہ اقبالؒ کی شاعری کا ذکر کیا کرتے تھے۔ انہوں نے فکشن‘ نان فکشن‘ تاریخ و ادب سمیت تقریباً ہر موضوع پر کتابیں لکھیں۔ سکھ مذہب اور سکھوں کی تاریخ پر ان کی کتاب ’اے ہسٹری آف سکھز‘ ان کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں سے ایک ہے اور اسے دنیا بھر میں پذیرائی ملی۔ انہوں نے بھارت کے مختلف حصوں میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کی مذمت پر مبنی کتاب ”دی اینڈ آف انڈیا“ لکھ کر امن پسند گروپوں کے دل جیت لئے۔ ان کی کتاب ”خوشونت نامہ“ میں بتایا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ سے ایک ایسے شخص کے طور پر زندہ رہنا چاہتے تھے جو لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرتا تھا۔ ان کا حس مزاح ان کی پہچان رہا۔ وہ صحافیوں کے لئے رول ماڈل رہے اور نوجوان مصنفین اور ابھرتے ہوئے صحافیوں کی رہنمائی کے لئے ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ انہوں نے کتابوں کی اشاعت سے حاصل ہونے والی رائلٹی کا ایک پیسہ بھی اپنے اوپر خرچ نہیں کیا بلکہ تمام رقم خیراتی اداروں کو عطیہ کردی۔خوشونت سنگھ کا انتقال بیس مارچ دوہزارچودہ کے روز نئی دہلی میں ننانوے سال کی عمر میں ہوا۔ اس سے قبل انہوں نے وصیت کی تھی کہ آخری رسومات کے بعد ان کی راکھ کو پاکستانی گاؤں ہڈالی کے سکول لے جایا جائے جہاں انہوں نے بچپن میں تعلیم حاصل کی تھی۔ ہڈالی سکول کی عمارت پر خوشونت سنگھ کی یادگاری تختی ان کی جائے پیدائش پاکستان سے محبت کی بے مثال علامت ہے۔ خوشونت سنگھ اپنی زندگی میں پاکستان و بھارت میں یکساں مقبول تھے اور آج بھی ان کی شخصیت سرحد کے دونوں اطراف رہنے والے کو قریب لاسکتی ہے۔ مٹی کے اِس عظیم بیٹے خوشونت سنگھ کو اُن کا جنم دن (سالگرہ) مبارک ہو۔ (مضمون نگار رکن قومی اسمبلی اور پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)