آئی ایم ایف: غیرمعمولی اتفاق رائے

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے سامنے مالی فریم ورک میں  600ارب روپے کے متوقع خلا (خسارے) کو پُر کرنے کے لئے اضافی محصولات (آمدنی بڑھانے) کی شرط رکھی ہے جسے پورا کرنے کے لئے ٹیکس اور نان ٹیکس ذرائع سے آمدنی بڑھائی جائے گی۔ مشن چیف نیتھن پورٹر کی سربراہی میں آئی ایم ایف کی ٹیم ’نویں جائزے‘ کے لئے پاکستان میں موجود ہے اور اِن مذاکرات کا عمل 9 فروری تک جاری رہے گا۔ مہینوں کی ہچکچاہٹ کے بعد اور زمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر کی وجہ سے بگڑتی معاشی صورتحال میں ’آئی ایم ایف‘ شرائط من و عن قبول کرنے کے علاوہ معاشی بحالی کے لئے کوئی دوسرا آسان راستہ (آپشن) موجود نہیں ہے اور اب چونکہ ’آئی ایم ایف‘ کی جملہ شرائط تسلیم کی جا رہی ہیں اِس لئے مذاکرات کے قبل از وقت اختتام اور اِس حوالے سے ایک باقاعدہ معاہدہ ہونے کے قریب آ پہنچا ہے۔وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ٹیم ساڑھے چھ ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج (قرض) کی بحالی پر حکومت کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے تاہم اِس حوالے سے عوامی سطح پر احتجاج نہیں ہو رہا جبکہ عوام کم سے کم اتنا تو جانتی ہی ہے کہ ’آئی ایم ایف‘ سے مزید قرض جن شرائط پر مل رہا ہے اُس سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوگا۔اگر آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے کا سارا بوجھ عام آدمی پر منتقل کیا جائے گا تو اِس سے معاشی پریشانیوں  میں اضافہ ہوگا۔ آئی ایم ایف کے مغربی ایجنڈے کو تنقید کا خاطرخواہ نشانہ نہیں بنایا جا رہا  حالانکہ قرض کے ذریعے معیشت کو وقتی سہارا تو دیا جا سکتا ہے لیکن اِفسے چلایا نہیں جا سکتا۔ توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف)‘ لیٹر آف انٹنٹ‘ میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز (ایم ای ایف پی)‘ ٹیکنیکل میمورنڈم آف انڈرتھنگ (ٹی ایم یو)‘ جائزہ شرائط‘ پیشگی اقدامات‘ بینچ مارک‘ خسارے وغیرہ جیسی اصطلاحات  عام آدمی پر پڑنے والے بوجھ کا اظہار نہیں کرتیں۔پاکستان میں مہنگائی کی شرح سرکاری اعدادوشمار کے مطابق قریب 28 (27.6) فیصد ہیں لیکن برسرزمین مہنگائی اِس سے کئی سو گنا زیادہ ہے۔ صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ غریب اور نچلے و متوسط طبقات کے لئے کھانے پینے کی اشیا ء پہنچ سے باہر ہیں جبکہ خوراک اور ایندھن کی لاگت اِس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اِس سے متوسط اور اپر مڈل کلاس بھی متاثر ہے۔  سوال یہ ہے کہ ’آئی ایم ایف‘ پاکستان سے کیا چاہتا ہے؟ آئی ایم ایف قرض دینے سے پہلے اِس بات کی ضمانت چاہتا ہے کہ پاکستان حکومت کے اخراجات اور اِس کی آمدنی  میں توازن قائم ہو۔ اِس توازن کو بڑھانے کے 2 طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ حکومت اپنے اخراجات کم کرے اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ حکومت اپنے اخراجات کم نہ کرے لیکن اپنی آمدنی بذریعہ ٹیکسیز (محصولات) بڑھائے اور یہی سب سے زیادہ آسان حل سمجھ لیا گیا ہے کہ قومی آمدنی بڑھانے کے لئے ٹیکسوں کی شرح میں ردوبدل (اضافہ) کر دیا جائے۔ ’آئی ایم ایف‘ چاہتی ہے کہ حکومت کمائی سے زیادہ خرچ نہ کرے جبکہ آمدنی بڑھانے کے لئے امیروں اور مراعات یافتہ طبقات پر براہ راست ٹیکس لگائے جائیں اور سبسڈی واپس لے۔ پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے۔ پاکستان کی معیشت ابھی تک کورونا وبا کے اثرات سے نہیں نکلی۔ ایک قسم کی معاشی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوتیں کہ مزید مشکلات آ جاتی ہیں اور اِن سبھی مشکلات سے نکلنے کا راستہ یہ ہے کہ قومی وسائل کو ترقی دی جائے۔ کفایت شعاری اور سادگی پر مبنی طرز زندگی اختیار کیا جائے۔ غذائی خودکفالت کے لئے زرعی ترقی پر توجہ دی جائے۔ پاکستان کو جس معاشی بحران کا سامنا ہے وہ ایک دلدل کی طرح ہے جس سے نکلنے کی کوشش نہیں ہو رہی لیکن اِس میں دلدل میں دھنسنے کی رفتار کم کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔ عام پاکستانی کے نکتہئ نظر سے معاشی اِصلاح‘ سرکاری اِداروں میں ڈھانچہ جاتی اِصلاحات اور اَمور مملکت کی انجام دہی میں کفایت شعاری کا مظاہرہ کرنے کے لئے مزید قرض لینے کی ضرورت نہیں بلکہ معاشی بحالی کے لئے عوام کو اعتماد میں لیا جائے اور پوری قوم معاشی اصلاحات کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر پرویز طاہر۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)