چین و امریکہ: عالمی طاقتوں کی رسہ کشی

گزشتہ دو ماہ کے دوران تین اہم واقعات رونما ہوئے جو سال 2023ء میں چین اور امریکہ کے تعلقات پر براہ راست اور بالواسطہ اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ نومبر میں ہونے والے وسط مدتی امریکی انتخابات نے ’سہ رخی کانگریس‘ کو جنم دیا جس میں ڈیموکریٹس نے صرف ایک ووٹ کی برتری کیساتھ سینیٹ کا کنٹرول حاصل کیا جبکہ ری پبلکنز ایوان نمائندگان میں بمشکل معمولی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے‘ امریکی کانگریس میں اقتدار کی موجودہ مساوات قانون سازی سے متعلق فیصلہ سازی پر اثرانداز ہوتی ہے اور صدر جو بائیڈن کے قانون سازی سے متعلق ایجنڈے کی راہ میں حائل رکاوٹ ہے جس کا مطلب ہے کہ صدر بائیڈن 2024 کے صدارتی انتخاب میں امریکی ووٹروں کو راغب کرنے کے لئے جارحانہ خارجہ پالیسی اختیار کریں گے اور اُن کی زیادہ تر توجہ چین پر مرکوز رہے گی۔ دوسری اہم بات سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سال دوہزارچوبیس کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا باضابطہ اعلان ہے اور ٹرمپ اگلے دو سالوں میں اپنی صدارتی مہم کے دوران چین مخالف بیان بازی میں اضافہ کر سکتے ہیں‘ جس کے برعکس صدر جو بائیڈن کو چین کے بارے میں زیادہ سخت مؤقف اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے گا تاکہ وہ ٹرمپ کے چین مخالف بیانیے کا مقابلہ کر سکیں اور اِس سے خاصی خطرناک صورتحال جنم لے گی۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ نئے سال کے موقع پر چین کی وزارت خارجہ میں کچھ بڑی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں ہیں‘ جن سے متعلق امریکہ کے میڈیا اور تعلیمی اداروں میں اِس حوالے سے گرما گرم بحث جاری ہے۔ امریکہ میں چین کے سفیر چن گینگ کو تیس دسمبر کے روز چین کا وزیر خارجہ مقرر کیا گیا جبکہ چین کے نائب وزیر خارجہ ژی فینگ کو واشنگٹن میں چین کا سفیر مقرر کئے جانے کا امکان ہے۔ مسلسل قیاس آرائیوں اور سنسنی خیزی کے عادی ہونے کی وجہ سے امریکی میڈیا نے ایک بنیادی نکتے کو مکمل طور پر نظر انداز کر رکھا ہے جو یہ ہے کہ چین کے سفیروں اور وزرأ کا چین کی خارجہ پالیسی سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا کیونکہ خارجہ امور کے سبھی چھوٹے بڑے فیصلے حکمراں جماعت (چائنا کیمونسٹ پارٹی سی سی پی) کی مرکزی کمان کرتی ہے۔ سفیروں اور وزرأ کا کردار بنیادی طور پر‘ زیادہ تر نمائشی ہوتا ہے۔ کچھ ایسے امور ہیں جن میں سفیروں اور وزرأ کی انفرادی رائے ضرور کردار ادا کرتی ہے لیکن اس کا دائرہ کار بھی بہت محدود رہتا ہے۔ شاعر ایلیٹ نے لکھا تھا کہ ”(کسی کام کا) اختتام کرنا (درحقیقت) ایک (نیا) آغاز ہوتا ہے۔“ اِس قول کے تناظر میں جب ہم چین کی خارجہ پالیسی کو دیکھتے ہیں تو صورتحال بڑی حد تک واضح ہو جاتی ہے۔ چین کے وزیر خارجہ کین گینگ نے چار جنوری کو واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے اپنے الوداعی مضمون کے اختتام پر لکھا ”مجھے یقین ہے کہ دونوں ممالک (چین و امریکہ) کے درمیان تعلقات مثالی ڈگر پر چلیں گے۔“ اس مضمون میں کن گینگ کے اختتامی الفاظ بیجنگ کے اس ارادے کی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ تائیوان اور تجارتی رقابت سمیت اہم امور پر محاذ آرائی کے مؤقف پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ کئے بغیر واشنگٹن کے ساتھ تجارتی شراکت داری جاری رکھنا چاہتا ہے‘ ٹرمپ انتظامیہ نے چین کی حکومت کو گھیرنے کے لئے کئی جارحانہ اقدامات کئے تھے جن میں تجارتی جنگ‘ جغرافیائی سیاسی مسلط کرنا‘ سفارتی دھمکیاں‘ تکنیکی پابندیاں اور دیگر ایسے اقدامات شامل تھے جنہیں بالواسطہ غنڈہ گردی قرار دیا گیا تھا لیکن یہ تمام اقدامات واشنگٹن کو مطلوبہ مقاصد کے حصول کے لئے ناکافی ہوئے۔ جب صدر جو بائیڈن دوہزاربیس میں ’اوول آفس‘ میں داخل ہوئے تو ان کے بہت سے قریبی ساتھیوں نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ چین کے بارے میں ’نرم‘ رہیں تاکہ ٹرمپ کے چار سالہ دور میں چین پر ڈالے گئے دباؤ کے نقصانات پر قابو پایا جا سکے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اور جو بائیڈن نے اپنے مشیروں کی نہیں سنی۔ جس کے بعد سے چین اور امریکہ کے تعلقات آہستہ آہستہ خراب ہوتے اُس مقام تک چلے گئے جہاں دونوں ممالک  میں انتہائی محاذ آرائی دیکھنے میں آ رہی ہے۔جو بائیڈن انتظامیہ کو اپنی چین پالیسی کے بنیادی خدوخال بتانے میں تقریبا اٹھارہ ماہ لگے۔ چھبیس مئی کو جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے کیمپس میں ایشیا سوسائٹی کے زیر اہتمام ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے وائٹ ہاؤس میں چین کے بارے میں سوچ کے بارے میں ایک جامع نکتہئ نظر پیش کیا جو چین کی بڑھتی ہوئی تکنیکی قیادت کا مقابلہ کرنے کیلئے ٹرمپ جیسا ہی نقطہ نظر تھا۔ اِس تقریب کے ٹھیک ایک ماہ بعد میڈرڈ میں نیٹو کے سربراہ اجلاس میں امریکی قیادت نے آخری اعلامیے میں چین کے خلاف سخت ترین زبان استعمال کی اور کہا ”ہمیں عوامی جمہوریہ چین سمیت ان ممالک سے منظم مقابلے کا سامنا ہے جو ہمارے مفادات‘ سلامتی اور اقدار کو چیلنج کرتے ہیں اور قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظام کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔“ یہ صدر بائیڈن کی جانب سے چین کے بارے میں سخت ترین مؤقف کا واضح اشارہ تھا۔ اس کے بعد امریکی ایوان نمائندگان کی سابق اسپیکر نینسی پلوسی نے تائیوان کا انتہائی اشتعال انگیز دورہ کیا۔ اس بات پر یقین کرنے کی کافی وجوہات موجود تھیں کہ ان کے تائی پے دورے کو صدر جو بائیڈن کی مکمل حمایت حاصل تھی جنہوں نے انہیں آخری لمحات میں چینی صدر شی جن پنگ کی جانب سے ٹیلی فون پر ”آگ سے نہ کھیلنے“ کی وارننگ کو نظرانداز کیا‘ معاملات یہیں نہیں رکے اور بائیڈن انتظامیہ نے بارہ اکتوبر دوہزاربائیس کو اپنی نئی قومی سلامتی کی حکمت عملی جاری کی‘ جس میں چین کو واضح طور پر امریکہ مخالف اور امریکی مفادات کیلئے خطرہ قرار دیا گیا تھا۔ مذکورہ پالیسی میں چین اور بحرہند و بحرالکاہل سے متعلق ابواب زیادہ بڑے رکھے گئے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عمران خالد۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)