پاک امریکہ تعلقات بحالی: نئی جہت

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات گزشتہ ایک دہائی سے بالخصوص متنازع اور کشیدہ چلے آ رہے ہیں تاہم اب دونوں ممالک کے آپسی مراسم بحال ہو رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ تعلقات کی بحالی کے بعد تعلقات کی جہت کیا ہوگی؟ ماضی میں اور بالخصوص 1979ء کی افغان جنگ کی بنیاد پر قائم ہونے والے پاک امریکہ تعلقات میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے اتحادی ضرور تھے لیکن دوست کبھی نہیں رہے۔  ایسے تعلقات سرد جنگ اور یک قطبی دنیا میں تو چل سکتے ہیں لیکن نئے اُبھرتے ہوئے عالمی نظام میں اس کی گنجائش نہیں ہو سکتی۔ امریکہ کا ’نہ ختم ہونے والے جنگوں‘ سے باہر نکلنا‘ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی قوم پرستی‘ طاقت کا عدم توازن‘ ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے اتحاد اور مقابلہ کرتی جغرافیائی سیاست اس نئے نظام کے مظاہر ہیں۔ ممالک کو انتخاب کی ضرورت ہے اور جیسے جیسے بڑی طاقتیں اثر و رسوخ کے لئے مقابلہ کریں گی ویسے ویسے ممالک کو اس انتخاب کے مواقع بھی ملیں گے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے مفادات دیرپا ہیں۔ ان مفادات کی اہمیت میں تو اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے لیکن اس سے تعلقات متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔ پاکستان کو لگتا ہے کہ اب بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ اسے اپنے تعلقات میں تبدیلی لانی چاہئے۔  اِس تبدیلی سے پاکستان کو اپنی جغرافیائی سیاسی حیثیت کا بھی ادراک کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ پاکستان خطے میں موجود امریکہ اور بھارت کے تعلقات میں اپنی کچھ جگہ بنانے میں کامیاب ہوجائے گا۔ امریکہ اور بھارت کے تعلقات کا خمیازہ پاکستان نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سمیت دیگر معاملات میں نقصانات کی صورت میں اٹھایا تھا۔  امریکہ کے کثیر الجہت تعلقات کی وجہ سے اس کے لئے ایک ایسے ڈھانچے کی ضرورت ہے جس میں جنوبی ایشیا سے متعلق امریکہ کی پالیسی کا دارومدار صرف بھارت پر نہ ہو۔ پاکستان کو امریکہ چین کشیدگی‘ بھارت سے تعلقات اور افغانستان کو جواز بنا کر نہیں بلکہ خود اپنی اہمیت اور مفادات کی بنیاد پر امریکہ سے مراسم کو بحال کرنا چاہئیں بہ ظاہر واشنگٹن میں ان تینوں معاملات کو ایک طرف کرکے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو استوار کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ بحالی کی صورت میں ابتدائی طور پر پاکستان کے ساتھ تعلقات کو افغانستان میں استحکام پیدا کرنے‘ انسدادِ دہشت گردی اور علاقائی امن و سلامتی پر مرکوز کیا جائے گا۔ اس کے لئے مختلف سطحوں اور شعبہ جات میں تعاون کی ضرورت ہوگی۔ اس کے علاوہ امریکہ کے پاس امدادی پالیسیاں بھی موجود ہوں گی جن سے عوام کو فائدہ پہنچے گا۔ پاکستان میں امریکہ مخالف سوچ کے باعث فی الحال یہ پالیسیاں عملی اور تعلقاتِ عامہ کے پہلوؤں پر مرکوز ہیں۔ امریکہ نے حال ہی میں فلڈ ریلیف کے لئے پاکستان کو کروڑوں ڈالر امداد فراہم کی۔ محفوظ اور اقتصادی اور سیاسی طور پر مستحکم پاکستان ہی خطے میں سلامتی کے حوالے سے امریکا کے لئے مددگار ثابت ہوسکتا ہے جبکہ اندرونی استحکام اور توازن پاکستان کی بھی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ پاکستان اور امریکہ تجارتی تعاون کو مضبوط کرنے‘ سرمایہ کاری‘ زراعت‘ تعلیم‘ صحت‘ ماحول دوست توانائی کے فروغ اور موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے تعاون پر سنجیدہ اقدامات کررہے ہیں۔ پاک امریکا گرین الائنس کی صورت میں امریکہ کی ہائبرڈ اور موسم سے موافق بیجوں‘ بائیوٹیکنالوجی اور مصنوعی انجینیئرنگ میں مہارت پاکستان کے زرعی شعبے کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے تحت موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے منعقد ہونے والی حالیہ جنیوا کانفرنس میں پاکستان کو ملنے والی عالمی حمایت کے پیچھے امریکہ کا کلیدی کردار رہا ہے اور ایسے میں سندھ طاس معاہدے کے نفاذ میں امریکی مفاد کی بھی امید کی جا سکتی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی موجودہ برآمدات کا سب سے زیادہ انحصار امریکہ پر ہے۔ پاکستان کی برآمدات گزشتہ سال سات ارب ڈالر سے بڑھ کر نو ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھیں جس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے شعبے میں ایک ارب ڈالر کی برامدات ہوئیں اور اِس شعبے میں مزید برآمدات کے فروغ کا انحصار پاک امریکہ تعلقات پر منحصر ہے۔۔ دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں جس کے تعلقات تمام ممالک کے ساتھ ایک جیسے ہوں۔ ہر ملک کے مراسم دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کونسا ملک اپنے کس دوست ملک کو کتنی اہمیت دے رہا ہے۔ پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات ناگزیر ہوسکتے ہیں لیکن امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی وقت کی ضرورت ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: توقیر حسین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)