بعداز انتخابات کراچی

طویل انتظار ختم ہوا اور گزشتہ ماہ جنوری میں کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی‘ جماعت ِاسلامی اور تحریک ِانصاف بڑی جماعتیں بن کر سامنے آئیں جبکہ دیگر سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں نے بہت کم نشستیں حاصل کیں۔ گزشتہ بلدیاتی انتخابات کے بعد ”میئر کراچی“ کا دفتر سنبھالنے والی متحدہ قومی موومنٹ نے حلقہ بندیوں کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حالیہ انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ عام شہریوں نے ایک بار پھر منتخب قیادت سے اپنی امیدیں وابستہ کرلی ہیں۔ بعض کو یقین ہے کہ یہ قیادت عہدہ سنبھالنے کے بعد خدمات کی فراہمی‘ مسائل کے حل‘ چھوٹے اور درمیانے پیمانے پر تعمیر و مرمت کے کاموں کی انجام دہی میں کارآمد ثابت ہوگی لیکن اگر مقامی حکومتوں کے کام کاج ’اسٹیٹس کو‘ برقرار رہتا ہے تو یہ شہریوں کیلئے مایوس کن ہوگا اگر کوئی تبدیلی نہیں آتی تو صوبائی اور وفاقی سطح پر موجود ہمارے حکمرانوں کا بڑے تعمیراتی منصوبوں کے حوالے سے جنون جوں کا توں رہے گا۔ کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ دہائیوں سے توجہ کا منتظر تھا۔ اس حوالے سے ریڈ لائن بس پروجیکٹ ایک مثال ہے۔ اس منصوبے پر مجموعی طور پر پچاس کروڑ تیس لاکھ ڈالر لاگت آئی ہے جس میں ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے 23کروڑ 50لاکھ ڈالر کا قرض بھی شامل ہے۔ یہ منصوبہ عوام کی ایک قلیل تعداد کو محدود پیمانے پر سفری خدمات فراہم کر رہا ہے۔ بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) کی حمایت کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ ان بسوں کو شہر کے تمام علاقوں میں رسائی حاصل ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ گرین لائن بی آر ٹی صرف سرجانی ٹاؤن سے نمائش چورنگی کی جانب سفر کرنے والوں کے لئے موزوں انتخاب ہے۔ موجودہ مالیاتی بحران کے پیش نظر‘ حکمرانوں کو عطیات سے چلنے والی‘ زیادہ لاگت کی حامل یا سبسڈی پر منحصر خدمات کی فراہمی کے انتخاب سے گریز کرنا چاہئے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کو 1996ء میں خسارے کے باعث بند کردیا گیا تھا۔ آپریشنل اخراجات کے مقابلے میں اس سے حاصل ہونے والی آمدنی انتہائی کم تھی۔ نجی ٹرانسپورٹ آپریٹرز کو سازگار ماحول فراہم کرکے ہم شہریوں کے ٹرانسپورٹ کے مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔ ٹرمینل کے لئے مقامات‘ بس روٹس کی اجازت دینے کا شفاف عمل اور مستحکم پالیسیاں اس کام میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔ شاید ہمارے اگلے میئر اور کونسلر شہریوں کی خواہشات کو صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے سامنے پیش کرسکیں تاکہ وہ شہری مسائل کے حوالے سے درست فیصلے کرسکیں۔ اس وقت اہم ضرورتوں میں سڑکوں کی مرمت‘ مسافروں کے لئے بہتر اور آسان بس روٹس کو متعارف کروانا‘ بس سٹاپ کا قیام‘ سکیورٹی کے مکمل انتظامات اور خواتین و بچوں کے لئے ٹرانسپورٹ کے ذرائع میں اضافہ شامل ہے۔ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے ساتھ میونسپل کی خدمات میں سڑکوں اور گلیوں کی صفائی بھی شامل ہے لیکن اب بلدیہ عظمیٰ کراچی (KMC) کو فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لئے صرف زمینوں کی فراہمی میں کردار ادا کرنے کی ہی اجازت ہے۔ اس حوالے سے موجودہ سہولیات ناکافی ہیں۔ جام چکرو اور گووند پاس کی ڈمپنگ سائٹس کو کچرا ٹھکانے لگانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جہاں اسے جلایا جاتا ہے۔ اس طرح کے مقامات کو بڑھتے ریئل اسٹیٹ منصوبوں کے باعث خطرے کا بھی سامنا ہے۔ اگلا میئر کراچی اِن مقامات کو کچرے سے توانائی پیدا کرنے کے لئے استعمال کرسکتا ہے۔ اس حوالے سے امکانات اور تکنیکی مطالعات کرکے ایسے مقامات کی نشاندہی کی جاسکتی ہے جہاں کچرے سے توانائی حاصل کرنے کے لئے پلانٹس تعمیر کئے جاسکیں۔ اس کے ذریعے کے ایم سی کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا اور ماحولیاتی آلودگی میں بھی کمی واقع ہوگی۔ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کو کے ایم سی اور دیگر میونسپل انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر نعمان اے۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)