مہنگائی  اورپریشانی

پاکستان کو معاشی بحران کا سامنا ہے۔ گزشتہ سال اپریل کے بعد سے مہنگائی (افراط زر) میں غیرمعمولی یعنی 33فیصد ہوا ہے اور اِس کم سے کم سالانہ اضافے کی شرح عام آدمی کی قوت خرید سے کہیں زیادہ ہے۔ ایک تو مہنگائی کی وجہ سے وہ بنیادی ضروریات زندگی خریدنے کے قابل نہیں رہے اور دوسرا اُن کے لئے آمدنی کے مواقع (ملازمتیں) کم ہو گئی ہیں کیونکہ جاری معاشی بحران میں صرف مہنگائی ہی نہیں بلکہ بیروزگاری کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے  افراط زر (مہنگائی) اور بے روزگاری کے دوہرے اثرات کی وجہ سے عام شہریوں کو محسوس ہونے والی معاشی پریشانیاں زیادہ ہیں جسے ایک سائنسی طریقے سے سمجھنے کے لئے 1960ء میں امریکی ماہر اقتصادیات آرتھر اوکن نے جانچ کا پیمانہ (انڈیکس) تیار کی تھی۔ جسے ”عدم اطمینان (بے چینی) انڈیکس“ کا نام دیا گیا تھا اور یہ بے روزگاری اور افراط زر کی شرح کا مجموعہ ہے۔ یہ کسی ملک کے شہریوں کی معاشی خوشحالی معلوم کرنے سادہ و خام پیمانہ ہے اور جب اِس پیمانے کو پاکستان پر لاگو کر کے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ مہنگائی شرح 33فیصد نہیں بلکہ اِس کے اثرات 40فیصد سے زیادہ ہیں اور اِس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے عام لوگوں کی زندگیوں‘ ذریعہ معاش اور مجموعی فلاح و بہبود پر شدید اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ راقم الحروف کے ذاتی تجربے کے مطابق‘ گزشتہ ایک سال کے دوران لوگوں کو ماہانہ کرایہ ادا کرنے‘ بجلی کا بلوں کی ادائیگی‘ پیٹرول و اشیائے خوردونوش کی خریداری حتیٰ کہ بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے میں بھی مشکلات درپیش ہیں۔ یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ جب خوراک کے مقابلے دیگر اخراجات زیادہ ہوتے ہیں اور کوئی خاندان صحت مند خوردنی اشیاء نہیں خرید سکتا تو اِس سے صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ مہنگائی کا سب سے نمایاں منفی پہلو (اثر) یہ ہوتا ہے کہ اِس کی وجہ سے بچوں کے تعلیمی سلسلے کو روک دیا جائے۔ غربت کا سامنا کرنے والے خاندانوں کو اپنے بچوں سے محنت مشقت یا تعلیم میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے اُور کئی ایسی مثالیں دیکھنے یا سننے میں آئی ہیں جن میں مجبوراً بچوں کو سکولوں سے نکال کر محنت مزدوری کرنے پر لگا دیا گیا ہے تاکہ وہ گھر کی کفالت میں ہاتھ بٹا سکیں۔ پاکستان میں غذائی افراط زر بھی ہے۔ سال دوہزار آٹھ میں ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق غذائی افراط زر کی شرح تیس فیصد رہنے کی توقع ہے جس کے نتیجے میں کروڑوں لوگ غربت کا شکار ہیں اور دیہی علاقے جہاں شہروں کے مقابلے غربت کے اثرات کم دکھائی دیتے تھے لیکن اب دیہی علاقوں میں بھی غربت بڑھ رہی ہے اگرچہ افراط زر کی لاگت کو روایتی طور پر مالی یا مالیاتی لحاظ سے دیکھا جاتا ہے لیکن افراط زر کے طویل عرصے تک کثیر الجہتی اثرات بھی ہوتے ہیں جن کا نسبتاً کم مطالعہ کیا گیا ہے اُور اِس کے عوامی صحت پر اثرات بے تحاشہ ہیں۔ طویل عرصے تک مہنگائی صحت عامہ کے بحران میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے خوردنی اشیاء کا معیار بھی خراب ہوتا ہے کیونکہ عوام کی قوت خرید کے مطابق اشیاء کی تیاری میں ملاوٹ شدہ اجزأ شامل کئے جاتے ہیں تاکہ قیمتیں کم (سستی) رکھی جا سکیں یعنی کم قیمت میں زیادہ مقدار کی اشیا فراہم ہوں۔ علاوہ ازیں مہنگائی کے نفسیاتی اثرات بھی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے کی رگوں میں تناؤ سرایت کر جاتا ہے۔ جب کسی خاندان کو کم مالی وسائل میں گزر بسر کرنا ہوتا ہے اُور اُنہیں ایک خاص حد میں ضروریات زندگی پوری کرنی پڑتی ہیں تو اِس صورتحال میں کنبے کے اراکین کی توقعات اور مطالبات کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے کشیدگی پیدا ہوتی ہے جبکہ خاندان کا کفیل یا ایک سے زیادہ کفالت کرنے والے بھی ذہنی دباؤ محسوس کرتے ہیں۔ ماہرین صحت کہتے ہیں کہ کسی بھی قسم کا دائمی تناؤ سنگین بیماریوں کا باعث بنتا ہے جن میں ہائی بلڈ پریشر‘ دل کے امراض‘ شوگر (ذیابیطس) اور ڈپریشن شامل ہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اہل پاکستان جس غیر معمولی افراط زر (مہنگائی) کا سامنا کر رہے ہیں اس کا معاشرے کے بڑے حصے پر گہرا اور نقصان دہ اثر پڑ رہا ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ثاقب شیرانی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)