فیصلہ کن گھڑی

ادھار پر مبنی  معاشی ڈھانچے کی وجہ سے عوام کی اکثریت غربت کا شکار  توہوتی ہی ہے جبکہ کہ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں آب و ہوا کی تبدیلی سے پاکستان  بد قسمتی سے زیادہ متاثر ہے اور بار بار آنے والے سیلاب اور خشک سالی کی وجہ سے معاشی ترقی کی رفتار سست ہوگئی ہے۔ موجودہ معاشی بحران کی شدت اور دھماکہ خیز نوعیت تکنیکی اقتصادی اصلاحات کی متقاضی ہے۔ پاکستان کی بقا کی جنگ کا آغاز سیاسی سطح پر ہونا چاہئے۔ سیاسی جماعتوں کو آپس میں متحد ہونا چاہئے اور اِس وقت ملک و قوم کو جس طرح کی قربانیاں دینی چاہیئں‘ اُنہیں ادا کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں کو عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے۔ شروع دن سے ہوتا آیا ہے کہ جب بھی معاشی سختیاں آتیں ہیں اِن کا سارا بوجھ عام آدمی پر ڈال دیا جاتا ہے لیکن اب وقت ہے کہ آمدنی کے لحاظ سے ملک کے سرمایہ داروں پر بھی معاشی بوجھ بڑھایا جائے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عوام کی اُمنگوں اور بانی پاکستانؒ کے ویژن کو دوبارہ حاصل کرنے پر توجہ اور وسائل مرکوز کرنے چاہئیں تاکہ ذہن اور معیشت غلامی و پسماندگی سے نکل سکے۔ پاکستان کی ضرورت ایک نیا معاشی ڈھانچہ ہے جس کے لئے اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ پائیدار ترقی لوگوں کی صلاحیتوں کو فروغ دینے پر مبنی ہو۔ ایسی معیشت میں‘ جو چند لوگوں کی بجائے تمام لوگوں کے ٹیلنٹ اور انٹرپرائز سے چلتی ہو‘ اُس میں ترقی کا عمل منصفانہ اور پائیدار خطوط پر استوار ہوگا لہٰذا آج کی ضرورت یہ ہے کہ مستقبل کے لئے ایک ایسا لائحہ عمل تیار کیا جائے جس سے معیشت غیر ملکی قرضوں اور مالدار طبقے کی  بجائے عوام کے لئے کام کرے۔ سوال یہ ہے کہ مختصر مدت میں موجودہ معاشی بحران سے کیسے باہر نکالا جائے۔ سال 2018ء میں کئے گئے قومی فیصلوں نے معاشی بحران کو اس قدر نازک سطح پر پہنچا دیا ہے کہ موجودہ سیاسی قیادت کے پاس ماسوائے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے احکامات کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کوئی چارہ نہیں رہا۔ حکومت اگر ’آئی ایم ایف‘ کی سخت شرائط تسلیم کرنے سے انکار کر دیتی ہے تو اِسے دیوالیہ ہونے جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا جو زیادہ مشکل ہے۔ پاکستان کے نوجوانوں نے موجودہ معاشی بحران جیسی صورتحال اِس سے قبل کبھی نہیں دیکھی۔ وہ سبھی لوگ پاکستان کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ اور عزم رکھتے ہیں اُنہیں قومی خدمت کا موقع ملنا چاہئے۔ جہاں تک آئی ایم ایف کے نئے پروگرام (قرض) کی بات ہے تو اِس سے قلیل مدتی راحت ملے گی اور حکومت کو سانس لینے کی گنجائش مل جائے گی۔ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر ندیم الحق نے تجویز پیش کی ہے کہ غیر ملکی پراپرٹی ڈویلپرز کو اہم شہری سرکاری زمین لیز پر دی جائے اور اس سے حاصل ہونے والی خاطر خواہ رقم کو غیر ملکی قرض ختم کرنے کے لئے استعمال کیا جائے۔ دوسرا ایک طویل مدتی معاشی ترقی کی حکمت عملی اپنائی جائے جو معیشت کو نئی شکل دے تاکہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور روزگار کے موجودہ مواقعوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ ایسی معیشت میں پائیدار ترقی کی بنیاد عالمی سطح پر اعلیٰ معیار کی صحت کی دیکھ بھال‘ تعلیم و ہنر مندی کی تربیت پر رکھی جا سکتی ہے۔ یہ خدمات افرادی قوت کی ترقی‘ پیداواری وسائل اور مالیات تک رسائی کے مواقع کی مساوات کے ادارہ جاتی فریم ورک کے اندر فراہم کی جانی چاہئیں۔ سرکاری غیر ترقیاتی اخراجات میں غیرمعمولی کٹوتی وقت کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر وزارتوں کی تعداد میں کمی ضروری ہے۔ساتھ ہی وزارتی قلمدانوں کی تعداد کا تعین ضرورت اور میرٹ کی بنیاد پر تقرریوں کی صورت ہونا چاہئے۔ ملک کی خوشحال صنعتی اور زمیندار اشرافیہ کو دی جانے والی تمام براہ راست اور بالواسطہ سبسڈیز ختم ہونی چاہئیں۔ وقت ہے کہ سرمایہ داروں کی بجائے غریبوں کو رعایت (سبسڈی) پر اشیائے خوردونوش  کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور اِنہیں براہ راست انکم سپورٹ پروگرام جیسی سہولیات ایندھن کے حصول یا ادائیگی کے لئے بھی فراہم کی جائیں۔ اس کے علاوہ ترقیاتی اخراجات کو احتیاط سے ایسے منصوبوں کی طرف منتقل کیا جائے جن سے غریبوں کو براہ راست فائدہ ہو‘ روزگار میں اضافہ ہو کیونکہ صرف محنت کش افرادی قوت اور عوام کے تعاون ہی کے سہارے موجودہ معاشی بحران کا حل ممکن ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کو ’آئی ایم ایف‘ کے نئے پروگرام کو اپنانے سے ملنے والی مہلت کا کس طرح استعمال کیا جاتا ہے اور اِس سے پاکستان کا مستقبل کس طرح سنوارے گا۔ پاکستان یا تو غربت یا پھر قرضوں پر انحصار میں الجھا ہوا ہے۔ سماجی انصاف پائیدار خوشحالی کا باعث بن سکتی ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان اِس لمحہئ موجود میں فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر اکمل حسین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)