سندھ طاس معاہدہ خطرے میں؟

پاک-بھارت آبی تعلقات کو کنٹرول کرنے والا سندھ طاس معاہدہ اس وقت خطرے کی زد میں ہے۔ اس معاہدے کے تحت تنازعات کو حل کرنے سے متعلق شقوں میں بھارتی ترامیم کی تجاویز کی وجہ سے اس معاہدے کو خطرہ لاحق ہے۔میڈیا میں لیک ہونے والی ترامیم میں تجویز کیا گیا ہے کہ اختلافات کو غیرجانبدار مبصرین یا ثالثی عدالتوں میں لے جانے اور کسی تیسرے فریق کو شامل کئے بغیر ہی ممالک دو طرفہ طور پر آپسی اختلافات کو حل کریں گے۔ اگر ان تجاویز کو قبول کرلیا جاتا ہے تو یہ دریائے سندھ کے نظام اور اس کے زیرِ اثر ماحولیاتی نظام، جو جنوب مغربی تبت سے بحیرہ عرب تک پھیلا ہوا ہے کو ہندوستان کی علاقائی خارجہ پالیسی کے تابع بنا دے گا۔ ان دونوں ممالک کو سرحدی طاسوں کی ہر صورت پابندی کرنی چاہئے۔پاکستان نے ان تجاویز کے حوالے سے باضابطہ طور پر کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا لیکن ہمارے ردِعمل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل 12 (3) کے تحت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ گزشتہ 72 سال کے اسباق کو مدِنظر رکھ کر ترمیم کے لئے مذاکرات کو 90 دنوں میں شروع کرے۔1971 کی پاک-بھارت جنگ کے بعد دونوں ممالک کے مابین جون 1972 میں طے ہونے والے شملہ معاہدے میں واضح کیا گیا تھا کہ دونوں ممالک اپنے مسائل کو باہمی طور پر حل کریں گے۔ پاکستان کے لیے شملہ معاہدہ دوطرفہ تعلقات اور مذاکرات کے عمل کا آغاز تھا جبکہ بھارت کے لئے یہ آپسی اختلافات حل کرنے کا پہلا اور آخری حل تھا۔ درحقیقت معاہدے کی ایسی شقیں جو غیرجانبدار مبصرین، ثالث عدالتوں اور عالمی بینک کے کردار کو شامل کرنے سے متعلق ہیں وہ کافی منفرد ہیں کیونکہ زیادہ تر سرحدی آبی معاہدوں میں یہ چیزیں شامل نہیں ہوتیں۔دریائے سندھ پاکستان کے آبی نظام میں دل کی سی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ ملک میں میٹھے پانی کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ بھارت میں لداخ، مقبوضہ جموں و کشمیر، دہلی، ہماچل پردیش، پنجاب، ہریانہ اور راجستھان میں پانی کی طلب کو پورا کرنے کے لئے دریائے سندھ کی نہروں پر مختلف تعمیرات بنائی گئی ہیں۔ یہ علاقے گنگا سے نکلنے والی نہر جمنا پر بھی منحصر ہیں۔ دریائے گنگا بھی دریائے سندھ کی طرح تبت کے مقام سے ہی نکلتا ہے۔غالباً اپنے کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو پاور منصوبوں کے حوالے سے سست فیصلہ سازی کے ردِعمل میں بھارت اس دوطرفہ سندھ طاس معاہدے میں ترمیم کرنے کے لئے جلدبازی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کا موقف ہے کہ ان دونوں منصوبوں کا ڈیزائن سندھ طاس معاہدے کے خلاف ہے۔پاکستان نے کشن گنگا کے حوالے سے اپنے تحفظات کو 2006 میں پرمننٹ انڈس کمیشن (پی آئی سی) میں پیش کیا جبکہ 6 سال بعد 2012 میں رتلے منصوبے کے خلاف بھی آواز بلند کی۔ اصل تنازعہ بھارت کے دریائے جہلم پر 330 میگاواٹ کے کشن گنگا پراجیکٹ اور دریائے چناب پر 850 میگاواٹ کے رتلے منصوبے کی تعمیر پر پاکستان کے تحفظات سے متعلق ہے۔عالمی بینک نے 2016 میں غیرجانبدار ماہرین کی تعیناتی اور معاملے کو ثالثی عدالت میں لے جانے پر عائد پابندی ختم کردی۔ پاکستان یہاں یکطرفہ طور پر عدالت کے فیصلے کا منتظر تھا جبکہ بھارت نے وہاں کشن گنگا پراجیکٹ بھی تعمیر کرلیا۔فیصلہ سازی کے عمل میں ہونے والی تاخیر پاکستان کے لیے نقصان دہ ہے لیکن پھر بھی بھارت نے سندھ طاس معاہدے میں ترمیم کا خیال پیش کیا۔ہمارے سامنے ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں ترکیہ اور آرمینیا کے درمیان دریائے ارپاکے پر پرمننٹ واٹر کمیشن، کینیڈا اور امریکا کے درمیان انٹرنیشنل جوائنٹ کمیشن فار باؤنڈری واٹر ٹریٹی، یورپ میں دریائے ڈینیوب کمیشن، دریائے میکونگ کمیشن اور دریائے نیل پر دی گرینڈ ایتھوپین رینیسانس ڈیم کے لئے ایتھوپیا، مصر اور دیگر ممالک پر مشتمل انٹرنیشنل پینل آف ایکسپرٹس شامل ہیں۔بھارت کی جانب سے مجوزہ ترامیم سے خطے میں آبی تعلقات کے مستقبل کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ گمان ہوتا ہے جیسے بھارت کے آبی پالیسیوں کے منتظمین بھی جیواسٹریٹجک پالیسی سازوں کے آگے اپنی اہمیت کھوچکے ہیں۔یہ بات بھی اہم ہے کہ کسی بھی دوطرفہ معاہدے میں کوئی بھی فریق یکطرفہ طور پر کوئی ترمیم نہیں کرسکتا۔ اسی طرح کوئی ایک ملک یکطرفہ طور پر اس معاہدے کو قائم بھی نہیں رکھ سکتا۔ بھارت کو اس اہم ترین معاہدے کو اپنے تعصب کی نذر نہیں کرنا چاہئے تاہم جس طرح بھارت پرجنگی جنون سوا ر ہے اور وہ عالمی امن کیلئے خطرے کی علامت بنا ہو اہے،اگر وہ سندھ طاس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی جسارت کرتا تو یہ بھارت کا ایک اور امن دشمن قدم ہوگا۔ایسے میں عالمی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بھارت کو من مانی کرنے سے روکے اور اسے بین الاقوامی معاہدات کی پاسداری پر مجبور کرے جس میں سندھ طاس معاہدہ کئی حوالوں سے اہم ہے۔(بشکریہ ڈان، تحریر:علی توقیر شیخ، ترجمہ: ابوالحسن امام)