آگے بڑھنے کا راستہ

 ٹیکنالوجی سے چلنے والی علمی معیشت میں سماجی و اقتصادی ترقی صرف ہائی ویلیو ایڈڈ ہائی ٹیک مصنوعات کی تیاری اور برآمد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ان میں انجینئرنگ کا سامان‘ فارماسیوٹیکلز‘ ویکسینز‘ بائیو ٹیکنالوجی پر مبنی صنعتی مصنوعات‘ مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس جیسی آئی ٹی مصنوعات‘ نینو ٹیکنالوجی مواد‘ توانائی ذخیرہ کرنے کا نظام‘ دفاعی سازوسامان وغیرہ شامل ہیں۔ ایسا کرنے کے لئے ضروری ہے  جو بھی حکومت ہو اس میں وزرأ‘ سیکرٹریز اور دیگر اعلیٰ حکومتی عہدیدار سائنس دان‘ انجینئرز اور ترقیاتی ماہر اقتصادیات ہوں۔ بانیئ پاکستان قائد اعظم نے ذاتی ڈائری میں اپنی ہینڈ رائٹنگ میں ایک نوٹ تحریر کیا تھا جس میں تجویز پیش کی گئی کہ پاکستان کو جمہوریت کا صدارتی نظام نافذ کرنا چاہئے جس میں پارلیمنٹ کے باہر سے وزرأ کی براہ راست تقرری کی اجازت ہو۔ موجودہ طریقہ کار میں وزرأ کا تقرر صرف پارلیمنٹ سے کیا جاتا ہے تاہم اس سے سرکردہ ماہرین کو پارلیمنٹ میں داخل ہونے کا موقع نہیں ملے گا کیونکہ انتخابات لڑنے کے لئے پندرہ سے بیس کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ انتخابات پر اس قدر بھاری اخراجات کی وجہ سے اہل ماہرین پارلیمان کا حصہ نہیں بن سکتے جس کی وجہ سے ٹیکنوکریٹس کی قومی فیصلہ سازی تک رسائی محدود ہو جاتی ہے۔ متبادل کے طور پر پارلیمانی جمہوریت کا ’علیحدہ نظام‘ ہو سکتا ہے جس میں ٹیکنوکریٹس کا تقرر براہ راست وزیر اعظم پارلیمنٹ کے باہر سے کرتا ہے۔ گھانا میں وزرأ کی بڑی تعداد وہاں کے قانون کے مطابق‘ براہ راست پارلیمنٹ کے باہر سے مقرر کی جاتی ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں بھی وزرأ کی ایک مخصوص تعداد کا تقرر براہ راست وزیر اعظم کر سکتا ہے یعنی وزرأ کا پارلیمان کا رکن ہونا ضروری نہیں ہوتا پاکستان میں بھی جمہوریت کا ’ہائبرڈ پارلیمانی نظام‘ آئین میں ضروری تبدیلیوں کے ذریعے ممکن ہے جس کے ذریعے ستر فیصد وفاقی وزرأ کا تقرر ملک میں موجود اعلیٰ ترین ماہرین میں سے ہونا چاہئے جبکہ بقیہ تیس فیصد کا تقرر پارلیمنٹ سے کیا جائے۔ آگے بڑھنے کا راستہ واضح ہے۔ وزیر اعظم کو ملک میں دستیاب بہترین ماہرین کو براہ راست مختلف وزارتوں کی ذمہ داری سونپنی چاہئے جو حقیقت میں وفاقی وزرأ کے طور پر مقرر کئے جانے کے قابل ہوں اور پارلیمنٹیرینز کے کردار کو قانون سازی اور نگرانی تک محدود کیا جائے۔ ایسا کرنے سے انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی جو کردار پارلیمنٹ کا حصہ بننے کے لئے سرمایہ کاری کرتے ہیں اُن کی حوصلہ شکنی ہوگی اور وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو قومی وسائل اور دولت کی خردبرد کے امکانات بھی کم ہو جائیں گے۔ سماجی و اقتصادی ترقی کے عمل کی سمتوں کو موجودہ کمزور قدرتی وسائل سے چلنے والی معیشت سے مضبوط ٹیکنالوجی پر مبنی علمی معیشت میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ایک مقررہ وقت میں قومی ٹیکنالوجی اور جدت کے اصول پر مبنی صنعتی پالیسی کی تشکیل اور منظوری کے ساتھ اس کے نفاذ کی حکمت عملی اور ایکشن پلان کی ضرورت ہوگی۔ تعلیم‘ سائنس و ٹیکنالوجی اور جدت کو قومی ترجیح دینے کی ضرورت ہے اور تمام وزارتوں کو وزیر اعظم کی براہ راست نگرانی میں ہونا چاہئے جو اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مصنوعات کی تیاری اور برآمدات کے فروغ پر توجہات مرکوز کریں۔ ضروری ماحولیاتی نظام بنانے کے لئے بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری اور کاروبار میں آسانی  کیلئے اگر ضرورت ہوتوقانون سازی کی جائے۔ میگا کرپشن کیسیز میں سزا دینے کے لئے نئے قوانین متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ یہی کچھ چین‘ انڈونیشیا اور کئی دیگر ممالک میں کیا گیا اور ہمیں بھی یہی کرنا چاہئے۔ پاکستان اُس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک بدعنوانی کا  جڑ سے خاتمہ نہیں  ہوتا۔ وزارت ِمنصوبہ بندی کا نام تبدیل کر کے ’ٹیکنالوجی پر مبنی نالج اکانومی کی وزارت‘ رکھا جانا چاہئے اور دیگر تمام وزارتوں کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان مضبوط بنیاد پر علمی معیشت میں ڈھل سکے۔ مثال کے طور پر‘ وزارت ریلوے کو دنیا بلٹ پروف ٹرینوں کی تیاری اور برآمدات کے قابل بنانے کی ذمہ داری سونپی جانی چاہئے۔ وزارت توانائی کو بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے لئے سولر پینلز‘ ونڈ ملز اور سالڈ اسٹیٹ بیٹریوں کی تیاری اور برآمدات میں معاونت کی ذمہ داری سونپی جائے۔ وزارت ’آئی ٹی‘ کو ہر سال ایک لاکھ آئی ٹی پروفیشنلز کی تربیت میں مدد دینے کی ذمہ داری سونپی جانی چاہئے تاکہ ہماری ’آئی ٹی‘ برآمدات کو ایک سو ارب ڈالر سالانہ تک بڑھایا جا سکے۔ وزارت صحت کو ویکسین اور ادویات کی تیاری و برآمد کا کام سونپا جائے۔ اسی طرح کا سٹریٹجک کردار دیگر وزارتوں کو بھی دیا جانا چاہئے تاکہ وہ پاکستان کی برآمدات میں اضافے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ اس بنیادی کردار کے مطابق کارکردگی کے کلیدی اشارے ہر وزیر‘ سیکرٹری اور مختلف اداروں کے سربراہان کو جاری کئے جائیں اور اگر وہ کارکردگی دکھانے سے قاصر ہوں تو انہیں تبدیل کر دیا جائے۔ مذکورہ بالا چھ نکاتی ایجنڈے میں پاکستان کے لئے بہتر مستقبل پوشیدہ ہے۔ منتخب دور اندیش‘ ایماندار پارلیمانی ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کا فریم ورک ہی پاکستان کے مسائل کا حل ثابت ہو سکتا ہے۔ (مضمون نگار ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بانی‘ سابق سربراہ اور سابق وفاقی وزیر رہے ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)