پاک روس تعلقات

پاکستان اور روس کے تعلقات میں ایک نئے باب کا اضافہ ہونے جا رہا ہے اور یہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک بھی سستی توانائی کے حصول کے لئے روس کی جانب متوجہ ہیں اور ہر ملک کی کوشش ہے کہ آج کی تاریخ میں روس سے اقتصادی‘ سیاسی اور فوجی تعلقات قائم کرے۔ روس اور پاکستان کے تعلقات کو ماضی میں دھچکا لگا جب آزادی کی پہلی دہائی میں ہی ہم اس وقت کی دونوں سپر پاورز امریکہ اور (سابقہ) سوویت یونین کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات میں توازن برقرار رکھنے میں ناکام رہے۔ اس کے باوجود‘ سوویت یونین نے برداشت کا مظاہرہ کیا اور 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں اپنے حلیف بھارت کا ساتھ دینے کی بجائے غیر جانبدار کردار ادا کرنے کی کوشش کی اور دونوں ممالک کو تاشقند اعلامیے کو حتمی شکل دینے میں سہولت بھی فراہم کی۔ بدقسمتی سے سابق سوویت یونین نے تنازعہ کشمیر پر بھارت کی حمایت جاری رکھی جو پاکستان کیلئے ناقابل قبول ہے اور پھر 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران بھارت کو روس کی جانب سے فوجی مدد بھی فراہم کی گئی۔ سوویت یونین نے ستر کی دہائی کے وسط میں ایک مثبت اشارہ کیا جب انہوں نے پاکستان میں سٹیل مل قائم کرنے کے معاہدے پر دستخط کئے تاہم دو طرفہ تعلقات ایک بار پھر اُس وقت مزید کشیدہ ہوئے جب پاکستان نے افغانستان میں سوویت جارحیت کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا جس کا اختتام سوویت یونین کی شکست (1979ء سے 1989ء) کی صورت ہوا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد‘ خاص طور پر اکیسویں صدی کے آغاز کے بعد‘ کشش ثقل کا عالمی مالیاتی مرکز مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہونا شروع ہوا اور اس کے ساتھ ہی بین الاقوامی جغرافیائی تزویراتی ماحول میں بھی تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ روس اور چین ایک دوسرے کے قریب آ گئے۔ ’ایس سی او  تشکیل دی گئی۔ بھارت آہستہ آہستہ امریکی کیمپ میں گھسنے لگا اور بالآخر وہ امریکہ کا سٹریٹجک اتحادی بن گیا۔ کورونا وبا نے عالمی معیشت کو بُری طرح متاثر کیا اور نیٹو کی مشرق کی طرف آہستہ آہستہ توسیع یوکرین جنگ میں اختتام پذیر ہوئی جس نے دیگر چیزوں کے ساتھ عالمی سطح پر توانائی بحران بھی پیدا کیا۔ اِس دوران روس نے بھی اپنا اثر و رسوخ مشرق کی طرف بڑھانا شروع کیا تو اِس سے پاکستان کو روس کے ساتھ اپنے دوطرفہ تعلقات بہتر بنانے کا سنہری موقع ملا۔ روس نے ہمیں ایم آئی سترہ ہیلی کاپٹر دیئے۔ مشترکہ فوجی مشقیں کی گئیں اور بعد میں ہمیں ایم آئی پینتیس ہیلی کاپٹر بھی دیئے گئے جن کی اُس وقت مالیت ڈھائی ارب ڈالر تھی۔ اِسی طرح پاکستان سٹریم گیس پائپ لائن (پی ایس جی پی) منصوبہ بھی جاری ہے جس سے کراچی سے قصور تک گیارہ سو کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن بچھائی جائے گی۔تجارت‘ اقتصادی اور سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون پر پاکستان اور روس کے بین الحکومتی کمیشن (آئی جی سی) کا آٹھواں اجلاس گزشتہ ماہ اسلام آباد میں منعقد ہوا ہے۔ ایف پی سی سی آئی کی پاکستان روس بزنس کونسل (پی آر بی سی) فعال طور پر روس کی کاروباری برادری کے ساتھ بامقصد رابطے کی خواہاں ہے اور انہوں نے مفاہمت کی چند یادداشتوں پر بھی دستخط کئے ہیں تاہم ’جی ٹو جی‘ کا خام تیل اور گیس کی فراہمی کے لئے مفاہمت نامے پر دستخط کرنا سب سے بڑی پیش رفت ہے جسے فوری طور پر باضابطہ معاہدے میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ آٹھ ملین بیرل سالانہ پاکستانی خام تیل کی ضروریات کا تقریبا پینتیس فیصد رعایتی نرخوں پر روسی تیل درآمد کرکے پورا کیا جائے گا۔پاکستان کے وزیر خارجہ کے حالیہ دورہئ روس نے دوطرفہ تعلقات کو مزید تقویت دی ہے۔ روس کے ساتھ مزید تعاون کے امکانات کو بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلے‘ ہمیں کرنسی کے تبادلے‘ بارٹر ٹریڈ اور افغانستان کے ذریعے ایک محفوظ تجارتی راستے کے انتظام سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کرنے اور اِسے حتمی شکل دینے کی ضرورت ہے شاید 1895ء میں روس اور برٹش انڈیا کے درمیان بفر کے طور پر بنائی گئی انتہائی تنگ واخان کوریڈور کے تحت ایک سرنگ کے ذریعے یہ تجارت زیادہ سودمند ہوگی۔ اس کی کم از کم گہرائی نو میل ہے اور یہ سی اے آر کے ذریعے روس جانے کا ایک محفوظ زمینی راستہ ہو سکتا ہے یقینا اِس کے لئے افغان حکومت کی رضامندی درکار ہے جس کیلئے پاکستان افغانستان کو مناسب رائلٹی دے سکتا ہے اور یہ رائلٹی روس کیلئے بھی بہت فائدہ مند ثابت ہوگی کیونکہ اسکے قریب گرم پانی کی کوئی بندرگاہ نہیں ہے۔ روسی خام تیل کو صاف کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا کیونکہ ہماری پانچ ریفائنریوں میں سے روسی خام تیل کی پروسیسنگ کے لئے کم سے کم دو کا استعمال کرسکتے ہیں۔پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کے فورم کو نہ صرف روس بلکہ سی اے آر کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کے فروغ کے لئے استعمال کرنا چاہئے اور تاپی منصوبے کو تیز کرنا چاہئے۔ اِس کے علاوہ اقتصادی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے سازگار علاقائی ماحول پیدا کرنے کے لئے بھی روس سے درخواست کی جا سکتی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کے حل کے لئے اپنا معروضی کردار ادا کرے اور افغانستان میں استحکام لائے‘ روس کو بھی چین پاکستان اقتصادی راہداری میں شامل ہونے کی ترغیب دی جانی چاہئے جو اسے گرم پانی کی بندرگاہوں تک ضروری رسائی فراہم کرے گا۔ روس اور پاکستان کے درمیان تعاون سے دفاعی پیداوار‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی ریلوے انفراسٹرکچر‘ زرعی تحقیق‘ سیاحت اور سٹیل کے شعبے میں تعاون کے وسیع مواقع پیدا ہوسکتے ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عبدالقیوم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)