پاکستان: ڈیجیٹل ترقی 

پاکستان میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے تو اِس سے قومی معیشت کو 9.7 کھرب روپے (59.7 ارب ڈالر) فائدہ پہنایا جا سکتا ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کے فروغ سے حاصل ہونے والی یہ ممکنہ آمدنی ملک کی مجموعی خام پیداوار کا 19 فیصدحصہ ہو سکتا ہے۔ ٹیلی نار ایشیا کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق ”ڈیجیٹل لائیوز ڈی کوڈڈ 2022ء“ سے معلوم ہوا ہے کہ 54 فیصد پاکستانیوں کا خیال ہے کہ موبائل ڈیوائسز اور موبائل فون ٹیکنالوجی نے ان کے کام کاج بشمول کاروبار کو نمایاں طور پر بہتر بنایا ہے اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کے استعمال سے اُن کی صلاحیتوں کو فروغ دینے میں مدد ملی ہے۔ اِس سلسلے میں خواتین کا کہنا ہے کہ موبائل فون ڈیوائسز نے اُن کے معیار زندگی کو نمایاں طور پر بہتر بنایا ہے۔ موبائل فون کو آمدنی بڑھانے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مذکورہ مطالعے میں شامل قریب نصف تعداد میں لوگوں کا خیال تھا کہ موبائل فون کے استعمال سے کام اور آمدنی کے مواقع فراہم ہوتے ہیں جو وبائی امراض سے پہلے دستیاب نہیں تھے۔ پاکستان میں 38فیصد جواب دہندگان کا کہنا ہے کہ موبائل تک رسائی نے اُن کے لئے نئے مواقع اور آسانیاں پیدا کی ہیں۔ ٹیلی نار کی جانب سے کی گئی تحقیق اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ موبائل رابطہ کاری (کنیکٹیوٹی) کی وجہ سے پیداواری صلاحیت‘ ترقی‘ اقتصادی مواقع اور ایک ایسا معاشرہ تخلیق پایا ہے جس میں ایک دوسرے کی صلاحیتوں اور خدمات سے فائدہ اُٹھایا جا رہا ہے۔ موبائل فون کی وجہ سے نہ صرف رابطہ کاری آسان ہوئی ہے بلکہ نئے کاروباری امکانات بھی پیدا ہوئے ہیں جن میں اہم ترین یہ بات شامل ہے کہ اب کسی بھی کاروبار یا موضوع کے بارے میں معلومات تک رسائی بہت ہی آسان اور فوری ہو گئی ہے جس سے پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہو رہا ہے اور مالی اِنتظام آسان و محفوظ طریقے سے سراَنجام پا رہے ہیں۔ تیزی سے بدلنے والی ’ڈیجیٹلائزڈ‘ دنیا کے بہت سے فوائد میں شامل ہے کہ اِس کے استعمال میں کسی بھی شخص کے لئے تعصب یا رکاوٹ نہیں پائی جاتی تاہم ڈیجیٹل لائیوز ڈی کوڈ 2022ء کے لئے سروے کئے گئے ہر ملک میں پرائیویسی اور سیکورٹی کے حوالے سے تشویش کا اظہار سامنے آیا جس میں پاکستان کے صارفین بھی شامل ہیں۔ گزشتہ ماہ جاری ہونے والی ’ورلڈ اکنامک فورم‘ کی گلوبل رسک رپورٹ 2023ء میں سائبر سیکورٹی اقدامات کی ناکامی بشمول پرائیویسی کو لاحق خطرات‘ ڈیٹا فراڈ یا چوری اور سائبر جاسوسی جیسے امور کو پاکستان کو درپیش پانچ بڑے خطرات میں سے ایک قرار دیا گیا تھا۔ رابطے اور ڈیجیٹل رسائی کے کلیدی فراہم کنندگان کے طور پر‘ ٹیلی مواصلات اور مالیاتی صنعت کو آج سیکورٹی کے اہم گیٹ کیپر کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ کمپنیوں کو لچک پیدا کرنے اور سائبر سیکورٹی کے حملوں کا پتہ لگانے‘ نیز اِس کے مضر اثرات کم سے کم کرنے اور آنے والے برسوں میں اپنی کاروباری سلامتی کے ایجنڈے کو اولین ترجیحات کے طور پر پیش کرنا ہے لیکن ایسی کاروائیوں (آپریشنز) کو فوری طور پر لاگو یا بحال کرنے کے لئے بہتر صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان سمیت کئی ممالک کو اس وقت زندگی گزارنے اور کاروباری سرگرمیوں کی لاگت میں غیر معمولی اضافے کا سامنا ہے۔ مزید برآں معاشی عدم استحکام نے کاروباری شعبے کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ سائبر خطرات کے خلاف گاہکوں اور کاروباروں کی حفاظت اور تحفظ کے لئے مستقبل میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ملک میں سائبر سیکورٹی میں صلاحیتوں اور صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لئے مل جل کر کام کرنے کے لئے حکومت سمیت تمام ماحولیاتی اداروں کے مابین قریبی بات چیت اور مشغولیت کی ضرورت و اہمیت کو واضح کیا ہے۔ پاکستان اور اس کی نوجوان کاروباری برادری کے لئے نئی ٹیکنالوجیز اور جدید ٹیلی کمیونیکیشن اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر سے فائدہ اٹھانے کی واضح ضرورت اور مواقع موجود ہیں تاہم ملک میں موجودہ کاروباری اور ریگولیٹری ماحول صنعت میں مزید سرمایہ کاری کے امکانات کو محدود کر رہا ہے چونکہ اہم ڈیجیٹل انفراسٹرکچر ابھی بھی گزشتہ سال شدید سیلاب کے نقصان سے دوچار ہے اِس لئے برق رفتار جدید انٹرنیٹ ”فائیو جی“ لانچ کرنے پر زور دینا‘ خاص طور پر پاکستان میں جہاں موبائل براڈ بینڈ کا استعمال اب بھی کم ہے‘ صارفین اور معیشت کو زیادہ سے زیادہ فائدہ نہیں پہنچایا جا سکتا۔ فور جی ٹیکنالوجی کو ترقی جاری رکھنی چاہئے کیونکہ اس میں اب بھی معاشرے کے موجودہ اور قلیل مدتی مستقبل کے تقاضوں کو کافی مؤثر طریقے سے پورا کرنے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ فائیو جی پر اچھے اور مؤثر استعمال کے معاملات کو مقامی ضروریات کی بنیاد پر تلاش کیا جانا چاہئے کیونکہ اِس سے ٹیکنالوجی کا استعمال میں مزید مہارت آتی ہے۔ پاکستان میں موبائل ٹیکنالوجیز کی کارکردگی اور کام کاج (آپریشنز) کی لاگت میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے اس شعبے کی مالی صحت بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان میں موبائل فون صارفین اور کاروباری اداروں کو سائبر خطرات سے کم خطرہ بنانے کے لئے مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اس طرح کی ترجیحات میں سائبر سیکورٹی میں قومی صلاحیتوں اور صلاحیتوں میں اضافہ شامل ہے۔ ملک میں ہر سال بیس ہزار سے زیادہ انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) گریجویٹس بنائے جا رہے ہیں جو اِس بات کی گواہی ہے کہ پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے ذریعے روزگار کے لاتعداد مواقع اور زبردست صلاحیت موجود ہے لیکن اِس سے خاطرخواہ استفادہ نہیں کیا جا رہا۔ ٹیلی کام شعبے کو انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری جاری رکھنے اُور اِسے جدید سے جدید بنانے کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ کاروباری توسیع کی گنجائش سے فائدہ اُٹھایا جائے۔ پاکستان ایک ایسا ملک بن سکتا ہے جہاں معاشرے کی جملہ ضروریات ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز سے پوری ہوں اور اِس کی معاشی بحالی بھی ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز سے ممکن ہے۔ پاکستان کی دو اہم ترین ٹیلی کام اور موبائل فنانشل کمپنیوں کے مالک کی حیثیت سے ٹیلی نار حکومت‘ سول سوسائٹی اور ملک کے دیگر تمام ڈیجیٹل ایکو سسٹم پلیئرز کے ساتھ رابطوں کا خواہاں ہے تاکہ پاکستان کی جاری ڈیجیٹل ترقی کی رفتار کو بڑھایا جا سکے۔ (مضمون نگار ٹیلی نار ایشیا کے سربراہ ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: جورگن ارینٹز۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)