موجودہ معاشی حالات میں سخت گیر کفایت شعاری کے سوا کوئی راستہ نہیں رہا‘ کفایت شعاری کا مطلب سرکاری مالیات کا انتظام کرنا ہے‘حکومت کو بجٹ خسارہ کم کرنا ہوگا اور عوامی قرضوں کی سطح میں بھی کمی لانا ہوگی۔ ’کفایت شعاری اقدامات‘ کی دو قسمیں ہیں: اخراجات پر مبنی اقدامات اور ٹیکس پر مبنی اقدامات۔ ’آئی ایم ایف‘ ٹیکس پر مبنی کفایت شعاری کے اقدامات کی حمایت کرتا ہے جبکہ ٹیکس پر مبنی کفایت شعاری کے اقدامات سے خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہوتی۔ اگر پائیدار اور فوری نتائج کی حامل ایسی کفایت شعاری مطلوب ہے جس سے عوام کی زندگیاں مشکل بھی نہ ہوں تو ایسی صورت میں حکومتی اخراجات پر مبنی کفایت شعاری اختیار کرنا پڑے گی۔اخراجات پر مبنی کفایت شعاری کے اقدامات کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔۔ موجودہ اخراجات پر مبنی کفایت شعاری اور ترقیاتی اخراجات سے متعلق کفایت شعاری۔ ترقیاتی اخراجات میں کمی کر کے کی جانے والی کفایت شعاری سے خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہوتے جبکہ جاری اور موجودہ حکومتی اخراجات پر مبنی کفایت شعاری کے ذریعے عوام کی بہبود جاری رکھتے ہوئے حکومتی اخراجات کم کئے جا سکتے ہیں۔ تین وجوہات کی بنا پر ٹیکس پر مبنی کفایت شعاری کے اقدامات درست قرار نہیں دیئے جاتے۔ سب سے پہلے یہ کہ اِن کی وجہ سے عدم مساوات بڑھتی ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھا جاتا ہے۔ دوسرا کاروباری اداروں کی کامیابی مشکل ہو جاتی ہے اور معاشی ترقی کو نقصان پہنچتا ہے۔ تیسرا کفایت شعاری کی یہ صورت زیادہ تر غیرمؤثر ثابت ہوتی ہے کیونکہ اِس سے معیشت کے کمزور ہونے کے ساتھ ٹیکس آمدنی میں کمی بھی ہوتی ہے۔ وفاقی حکومت کو اپنے اخراجات کنٹرول کرنا ہوں گے۔ اس کے علاوہ معاشی بہتری کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ’آئی ایم ایف‘ ایسا کہے یا نہ کہے لیکن ہمارے بجٹ تیار کرنے والوں کو بنیادی مالی سرپلس پیدا کرنا ہوگا۔ ’آئی ایم ایف‘ ایسا کہے یا نہ کہے لیکن ہماری حکومت کو سرکاری شعبے کا حجم کم کرنا ہوگا۔ یہ ہمارے اپنے قومی مفاد میں ہے۔ ’آئی ایم ایف‘ ایسا کہے یا نہ کہے‘ ہماری حکومت کو ’سرکاری اداروں‘ کی نجکاری کرنی چاہئے۔ یہ ہمارے اپنے مفاد میں ہے۔ ’آئی ایم ایف‘ کہے یا نہ کہے‘ حکومت کو بجلی اور گیس کے شعبوں میں اربوں روپے کے نقصانات پر قابو پانا ہوگا۔ حکومت کی کفایت شعاری تین چیزوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ایک تو اِس سے مارکیٹ کا اعتماد بحال ہوتا ہے۔ دوم اِس سے قرض لینے کی لاگت کم ہوتی ہے۔ تیسرا یہ طویل مدتی مالی استحکام کو فروغ دیتا ہے۔ جی ہاں حکومتی کفایت شعاری اور بہتر معاشی کارکردگی کے درمیان براہ راست تعلق ہے۔ 1990ء کی دہائی میں‘کینیڈا کی حکومت نے اپنے ہاں بجٹ خسارہ کم کرنے کے لئے کفایت شعاری کے لئے قابل ذکر اقدامات کئے اور اس کے نتیجے میں بہتر مالی پوزیشن اور پائیدار معاشی ترقی کا دور شروع ہوا۔ اِسی طرح آئرلینڈ میں 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد حکومت نے کفایت شعاری کے سخت اقدامات کئے گئے جس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا اور ائرلینڈ کی معیشت مستحکم ہوئی۔ وفاقی حکومت ہر سال ”عام عوامی کی خدمت و بہبود“ پر چھ کھرب روپے خرچ کرتی ہے۔ ان ’عام عوامی خدمات‘ کو معقول بنایا جانا چاہئے۔ وفاقی حکومت ہر سال ایک کھرب روپے کی ’گرانٹس‘ فراہم کرتی ہے۔ ان ’گرانٹس‘ کو معقول بنایا جانا چاہئے۔ وفاقی حکومت ہر سال چھ ارب روپے کی سبسڈی دیتی ہے۔ ان ’سبسڈیز‘ کو معقول بنایا جانا چاہئے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام