ہماری عمارتیں کتنی محفوظ ہیں؟

6 فروری کو حکومتِ ترکیہ نے ملک بھر میں 7 روزہ سوگ کا اعلان کیا جب ایک نہیں بلکہ دو قیامت خیز زلزلوں کا شکار ترکیہ میں ملبے تلے دبے متاثرین کو ریسکیو کرنے کا کام جاری تھا۔6 فروری کو علی الصبح ترکیہ میں 7 اشاریہ 8 اور 7 اشاریہ 5 شدت کے دو خوفناک زلزلے آئے۔ پہلے زلزلے کے جھٹکے مقامی وقت کے مطابق صبح 4 بج کر 17 منٹ پر محسوس کیے گئے۔ دونوں زلزلے ہی اتنی شدت کے تھے کہ انہیں تاریخ کے 20 بدترین زلزلوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ترکیہ کے وزیرِ دفاع نے اسے ملک کی 80 سالہ تاریخ کا بدترین زلزلہ قرار دیا۔ جنوبی ترکیہ کے 10 شہر اور 1 کروڑ 30 لاکھ افراد اس آفت سے متاثر ہوئے ہیں۔ پیر کی رات جب درجہِ حرارت نقطہِ انجماد کو چھو رہا تھا ایسے میں متعدد افراد کھلے آسمان تلے پناہ لینے پر مجبور تھے۔ شمالی شام میں تو حالات اس سے بھی بدتر ہیں کیونکہ وہاں سرچ اور ریسکیو آپریشن کے لیے سہولیات کا فقدان ہے۔اس زلزلے کی تباہ کاریوں کو دیکھ کر دل دہل جاتا ہے۔ ایک شہر میں ہی سرچ اور ریسکیو آپریشن میں مشکلات پیش آرہی ہیں تو سوچیں اس جیسے 10 شہروں میں اس طرح کے آپریشنز کیسے ممکن بنائیں جائیں گے۔ نوعِ انسانی کے ابتدائی دور سے ہی ترکیہ کے مشرقی حصے میں انسانی آبادیاں موجود رہی ہیں۔ ترکیہ کے جنوب میں واقع شہر غازی انتیپ میں موجود غازی انتیپ قلعہ 15ویں اور 16ویں صدی سے ہی اناطولیہ کے لوگوں کے لیے اہم مقام رہا ہے۔ یہ لوگ ہٹائٹس کے نام سے جانے جاتے تھے۔ رومن سلطنت کے دوران یہاں قلعہ تعمیر کیا گیا جبکہ 527 عیسوی میں بازنطینی شہنشاہ جسٹینین کے دور میں اسے وسعت دی گئی۔شہر کی مرکزی پہاڑی پر موجود یہ قلعہ بھی ان زلزلوں میں تباہ ہوگیا۔ اطلاعات کے مطابق اس قلعے کی دیواروں کے کچھ حصے منہدم ہوکر نیچے سڑک پر آگئے۔ قلعے کے اردگرد موجود لوہے کی ریلنگ کو بھی نقصان پہنچا اور وہ قلعے کے فرش پر گرگئیں۔ تاریخی اہمیت کے حامل اس قلعے کو کچھ عرصے قبل ہی عجائب گھر کا درجہ دیا گیا تھا۔زمین کی تین بڑی ٹیکٹونک پلیٹوں یعنی افریقی، عرب اور یوریشین پلیٹوں کے درمیان اناطولیہ کی پلیٹ موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اناطولیہ زلزلوں کے حوالے سے حساس خطہ تصور کیا جاتا ہے۔ قدیم دور سے یہاں زلزلے آتے رہے ہیں۔ حالیہ زلزلے اور اس کے آفٹرشاکس اس لیے شدید تھے کیونکہ یہ مشرقی اناطولیہ کی فالٹ لائن(جہاں زمین کی دو مختلف پلیٹیں ملتی ہیں)میں آیا تھا جس کے باعث اناطولیہ کی پلیٹ عرب پلیٹ سے 3 میٹر آگے بڑھ گئی ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ یہ زلزلہ شدید تباہ کن ثابت ہوا۔پاکستان بھی اس طرح کی خوفناک آفت کا سامنا کرچکا ہے۔ اس کے شمال میں موجود ہمالیہ پہاڑ جوان پہاڑ کہلاتے ہیں جن کے باعث یہاں زلزلے آتے ہیں۔ ترکیہ میں منہدم ہوتی عمارتوں کی ویڈیوز دیکھ کر 2005 کے ہولناک زلزلے کے نتیجے میں اسلام آباد میں مارگلہ ٹاورز گرنے کا منظر آنکھوں کے سامنے آگیا۔اس واقعے میں 70 کے قریب افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اس حادثے میں بچ جانے والے لوگ اکتوبر 2017 تک یہی شکایت کرتے نظر آئے کہ وزیرِاعظم کی جانب سے بنائے گئے فیکٹ فائنڈنگ کمیشن نے جو 1600 صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی اس کو منظرِعام پر نہیں لایا گیا جس کی وجہ سے اس تباہی کے ذمہ داروں کا تعین بھی نہیں ہوسکا۔دریں اثنا، اس وقت کے چیف جسٹس نے واضح طور پر ہدایت کی تھی کہ دارالحکومت میں ایسی عمارتیں تعمیر کی جائیں جو 9 شدت تک کا زلزلہ برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ 2005 کے ہولناک زلزلے کے بعد اسلام آباد میں عمارتوں کی تعمیر کا معیار اس ہدایت پر پورا نہیں اترتا ہے۔ متعدد لوگ اس زلزلے میں اس لیے محفوظ رہے کیونکہ اس وقت زیادہ تعداد میں بلند عمارتیں موجود نہیں تھیں۔2005 کے قیامت خیز زلزلے میں پاکستان میں 75 ہزار سے زائد افراد جان سے گئے جبکہ ایک لاکھ افراد زخمی ہوئے تھے۔ترکیہ عمومی طور پر بیرونی امداد لینا پسند نہیں کرتا لیکن اس آفت کے بعد بین الاقوامی برادری اس کی بڑھ چڑھ کر امداد کررہی ہے۔ جاپان اور اس جیسے دیگر ممالک جو ریسکیو آپریشنز میں مہارت رکھتے ہیں وہاں سے رضاکاروں کے دستے بھی بھیجے  گئے۔ ان تباہ کاریوں کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے عوام  بجا طور پر یہ سوال کر سکتے ہیں کہ ہمارے ملک کو ایسے کسی زلزلے کا سامنا کرنا پڑا تو ہماری حکومت نے اس حوالے سے کیا حفاظتی اقدامات کیے ہیں؟ کتنی سرکاری اور عوامی عمارتوں کو تعمیراتی قوانین کے تحت بنایا گیا ہے؟ مزید اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان میں بلند و بالا عمارتوں کے لئے کون سے معیارات لاگو کیے جارہے ہیں؟ترکیہ کی صورتحال دل دہلا دینے والی ہے جبکہ متاثرین کے کرب کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ زلزلوں کو روکا تو نہیں جاسکتا لیکن سچ اور سوالات کے جوابات طلب ضرور کیے جاسکتے ہیں۔ اور اب اس کا وقت آگیا ہے کہ قدرتی آفات کے حوالے سے ایسی پالیسی بنائی جائے کہ جانی اور مالی نقصان کو کم سے کم پیمانے پر رکھا جا سکے۔(بشکریہ ڈان، تحریر:رافعہ ذکریہ، ترجمہ: ابوالحسن امام)