کیا ’کینسیئنازم‘ واپس آئے گا؟

معاشی ماہر ’جان مینارڈ کینز (John Maynard Keynes)‘ کے بتائے ہوئے معاشی اصولوں کو ’کینیسیائی‘ کہا جاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد 1970ء کی دہائی کے وسط تک ’کینیسیائی معاشی نظریہ‘ دنیا پر حاوی رہا۔ نیو لبرل ماہرین اقتصادیات نے معیشت اور سماجی بہبود کے اِس ماڈل میں ریاستی مداخلت کم سے کم رکھنے پر زور دیا۔ انہوں نے مہنگائی (افراط زر) اور سست ترقی دونوں کو استعمال کرتے ہوئے ”سٹیگ فلیشن“ نامی صورتحال پیدا کی جو بہت سی ترقی یافتہ معیشتوں میں تیار کی گئی تاکہ کینیسیائی پالیسیوں کی افادیت کو کم کیا جاسکے اور اِس عرصے میں کینیسیائی نظریے کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی کیونکہ اس کے پاس سٹیگ فلیشن کے جواب میں کوئی مناسب پالیسی ردعمل نہیں تھا۔ نیو لبرل ماہرین اقتصادیات‘ مفکرین‘ سیاست دانوں اور ماہرین نے اِس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کینیسیائی معاشی ترقی کے اُس شعبے کا بدنام کیا جس کا براہ راست تعلق عوام سے متعلق تھا۔ کینیشیئن اقتصادی ماڈل ایک معاشی نظریہ ہے جو 1930ء کی دہائی میں برطانوی ماہر معاشیات جان مینارڈ کینز نے پیش کیا اور یہ نظریہ سرمایہ داری پر یقین رکھتا ہے لیکن یہ پہلی جنگ عظیم سے پہلے کے دور کی آزاد مارکیٹ‘ لبرل معاشی ماڈل سے مختلف تھا۔ جان مینارڈ کینز نے تجویز دی کہ حکومتی مداخلت ضروری ہے تاکہ کاروباری سرگرمیوں کو اعتدال پر لایا جائے اور معاشی ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔ کینیسیائی ماڈل مجموعی طلب پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ معیشت میں خریدی جانے والی اشیا ء اور خدمات کی مجموعی مقدار معیشت میں بنیادی محرک قوت کے طور پر کام کرتی ہے۔ ’جان مینارڈ کینز‘ کا کام مالی اور مالیاتی پالیسیوں کی شکل میں حکومتی مداخلت کے ساتھ مخلوط معیشت کا تصور ہے۔ یہ معیشتوں کو متحرک کرنے اور بے روزگاری کم کرنے کے لئے سرکاری اخراجات کرنے کا حامی ہے اور مالی وسائل کی فراہمی اور قیمتوں کے استحکام کے لئے مانیٹری پالیسی وضع کرنے کی وکالت کرتا ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی مالیاتی نظام کے لئے بھی دلیل دیتا ہے جو شرح تبادلہ کو مستحکم کرے اور اِس سے آزاد تجارت کو فروغ ملے۔ اِس نظریے سے پتہ چلتا ہے کہ اگر مجموعی طلب کم ہو تو حکومت مالی پالیسی کے ذریعے اس میں اضافہ کر سکتی ہے‘ جیسے عوامی ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرنا‘ ٹیکسوں میں کٹوتی یا سرکاری خزانے سے مالی وسائل کی فراہمی میں اضافہ۔ اس کے برعکس اگر مجموعی طلب زیادہ ہو تو حکومت مالی پالیسی کے ذریعے اسے کم کر سکتی ہے جیسا کہ حکومتی اخراجات میں کمی‘ ٹیکسوں میں اضافہ یا ترقیاتی امور کے لئے مالیاتی وسائل کی فراہمی کم کرنا۔ بنیادی طور پر‘ کینیشیئن ماڈل کا مقصد مکمل روزگار اور مستحکم قیمتوں کے حصول کے لئے مجموعی طلب اور مجموعی رسد کے درمیان توازن قائم کرنا ہے۔ جن ممالک نے کینیسیائی اقتصادی پالیسیوں کو اپنایا ہے وہاں کی معیشت میں حکومتی مداخلت زیادہ ہوتی ہے اور وہاں غریبوں کی بجائے سرمایہ داروں پر زیادہ ٹیکس نافذ کئے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اِسے اشرافیہ کے معاشی مفادات کے لئے خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے کیونکہ اِس طرح حکومتی مداخلت سے سرمایہ داروں کے اثاثوں میں ایک حد سے زیادہ اضافہ نہیں ہوتا۔ اگر پاکستان میں بھی کینیسیائی معاشی پالیسیاں نافذ کی جائیں تو اِس سے معاشی عدم مساوات کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ حکومتی اخراجات اور ٹیکسوں میں کٹوتی جیسی کینیسیائی پالیسیوں کی وجہ سے طلب میں اضافہ ہوتا ہے۔ ملک کی پیداوار بڑھتی ہے جس سے ملازمتی مواقعوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے بالخصوص اِس سے اُجرتوں میں اضافہ اور تمام آمدنی والے لوگوں کے لئے زیادہ مواقع پیدا ہوتے ہیں جس سے عدم مساوات کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ مزید برآں‘ حکومتی پالیسیوں کو کم از کم اجرت میں اضافے‘ روزگار کے زیادہ فوائد کی فراہمی اور ٹیکس نظام کو زیادہ ترقی پسند بنانے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے‘ جس سے مالیاتی عدم مساوات کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔اس حقیقت کے باوجود کہ دنیا بھر میں محنت کش طبقہ غربت‘ بے روزگاری‘ بھوک اور مہنگائی کے سمندر میں ڈوبا ہوا ہے۔ توقعات تھیں کہ سال دوہزارسات آٹھ کے عظیم کساد (مندی) اور نیو لبرل فری مارکیٹ اقتصادی نظام کی واضح ناکامی کے بعد‘ دنیا کینیشینازم کی طرف لوٹ آئے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ نیو لبرل سرمایہ دارانہ نظریے کا غلبہ تھا۔ آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک‘ ڈبلیو ٹی او اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی ادارے نیو لبرل نظریے کی گرفت میں تھے اور اب بھی ہیں۔ سال دوہزارسات اور سال دوہزار آٹھ کے عالمی مالیاتی بحران نے کینیسیائی اقتصادی فکر کی ضرورت کو دوبارہ اُجاگر کیا۔ یہ امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی حکومتوں کی طرف سے مالیاتی بحران کے جواب میں معاشی پالیسیوں کی نظریاتی بنیاد بنی۔ بہت سے ماہرین اقتصادیات نے اِس موضوع پر درجنوں عمدہ کتابیں لکھیں‘ جن میں کینیسیائی معاشی پالیسیوں کی وضاحت کی گئی اور معاشی بحران کو حل کرنے کے لئے تجاویز بھی پیش کی گئیں لیکن اشرافیہ نے کینیسیائی نظریے کی بنیاد پر مخلوط معیشت کو دوبارہ متعارف کرانے کی کسی بھی کوشش کی سختی سے مخالفت کی۔ حقیقت حال یہ ہے کہ سرمایہ داری کا حقیقی متبادل اشتراکیت ہے لیکن  اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ عناصر دونوں کے ساتھ مخلوط معیشت ہونی چاہئے جو سوشلسٹ پہلوؤں کی بالادستی کے ساتھ مالی طور پر طاقت ور طبقے اور نیو لبرل ازم کا قابل عمل متبادل ہو۔ ایسی معیشت محنت کش طبقے کی بنیادی ضروریات پورا کر سکتی ہے اور قومی معیشت کی تعمیر نو میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: خالد بھٹی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)