بحر اوقیانوس پر چین کے ایک مشتبہ نگران غبارے کو مار گرانے کے امریکی اقدام نے اِس تصور کو تقویت دی ہے کہ آنے والے دنوں میں امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔ امریکہ چین کو عالمی غلبہ حاصل کرتے ہوئے دیکھ رہا ہے اور چین کو اپنے لئے ممکنہ خطرے کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ گزشتہ سال واشنگٹن میں ایشیا سوسائٹی سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے چین کو نہ صرف امریکہ بلکہ بین الاقوامی نظام کے لئے بھی ”سنگین خطرہ“ قرار دیا تھا۔ سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے لندن میں دیئے گئے ایک لیکچر میں اِس بات سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ روس نہیں بلکہ چین ہے جو مغرب کے لئے براہ راست خطرہ ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ نیٹو سمیت مختلف مغربی ممالک کے سربراہان نے حالیہ دنوں میں مختلف مواقع پر ایسے ہی خدشات کا اظہار کیا ہے۔مغربی خدشات بنیادی طور پر بیجنگ کے اپنے اقدار کے نظام اور معاشی ماڈل پر پختہ یقین کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں تاکہ وہ اقوام کی برادری میں جگہ بنا سکے۔ اس نے ان لوگوں کو حیران کردیا ہے جنہوں نے پیش گوئی کی تھی کہ یہ آہستہ آہستہ ان سے دور ہوجائے گا کیونکہ یہ خوشحالی اور ترقی کی ایک خاص سطح حاصل کرتا ہے۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں چین کی شمولیت کی حمایت کرتے ہوئے‘ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے اِسے بیجنگ کی مغربی اقدار کے نظام اور معاشی ماڈل کو درآمد کرنے کی خواہش کی عکاسی کے طور پر لیا تھا۔ خاص طور پر گزشتہ تین دہائیوں میں چین کی حیرت انگیز نمو اور ترقی نے ملک کو عالمی جی ڈی پی درجہ بندی میں دوسرے مقام پر پہنچا دیا جیسا کہ بلیئر نے بھی نشاندہی کی چین نے درحقیقت دفاعی اور تکنیکی ترقی کے بعض شعبوں میں امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے یا اس کے برابر ہے اور امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے لہٰذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ چینی صدر شی جن پنگ نے اکتوبر دوہزارسترہ میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی قومی کانگریس سے اپنے خطاب میں اپنے ملک کو عالمی معاملات کے مرکز میں لانے کے اپنے مقصد کا اعلان کیا تھا اور متنبہ کیا تھا کہ کسی کو بھی یہ توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ چین اس کے مفادات کو نقصان پہنچانے والی
کوئی چیز نگل لے گا۔ یہ ان کے دوہزارتیرہ میں اعلان کردہ ’چائنا ڈریم‘ کی توثیق تھی جس کا مقصد 2049ء تک اپنے ملک کو بڑی طاقت بنانا تھا تاہم‘ اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ دونوں فریقوں کے درمیان موجودہ تناؤ امریکہ کے اس فیصلے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جس میں اس نے اپنی توجہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے ہٹ کر بیجنگ کو فوری خطرے کے طور پر مقابلہ کرنے پر مرکوز کردی ہے۔ سال دوہزارسترہ میں امریکہ نے اپنی قومی سلامتی کی حکمت عملی کو اپ ڈیٹ کرکے چین کو باضابطہ طور پر اپنے مفادات کے لئے خطرہ قرار دیا تھا۔ اس کے بعد‘ اِس نے چین کو زبردست فوجی اور معاشی چیلنج دینے کے لئے عالمی سطح پر شراکت داری اور اتحاد تشکیل دیئے۔ مثال کے طور پر کواڈ کے تحت اس نے خطے میں چین کے معاشی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے اگلے پانچ سالوں میں بحر ہند و بحرالکاہل سے جڑے ممالک کے لئے امداد اور سرمایہ کاری میں پچاس ارب ڈالر سے زیادہ کی توسیع کا وعدہ کیا۔ ایک اور اتحاد اے یو کے، یو ایس، بحیرہ جنوبی چین میں بنایا گیا یہ اتحاد چین کو چیلنج کرنے کے لئے جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوزیں تیار کرنے میں آسٹریلیا کی مدد کے لئے تشکیل دیا گیا ہے جبکہ فائیو آئیز اسی مقصد کے لئے امریکہ‘ برطانیہ‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے مابین انٹیلی جنس شیئرنگ کا نظام ہے اس کے علاوہ جی سیون رہنماؤں نے ترقی پذیر ممالک میں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا مقابلہ کرنے کے لئے سات ارب ڈالر کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ بلڈ بیک بیٹر ورلڈ (بی 600 ڈبلیو) کو کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں بنیادی ڈھانچے کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کے لئے ایک کاروائی کے طور پر بیان کیا گیا ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ اس منصوبے کا بنیادی مقصد زمینی اور سمندری راستوں کے ذریعے دنیا کو جوڑنے کے چینی اقدام کو روکنا ہے اگرچہ چین کے پاس عالمی غلبے یا اپنے ترقیاتی ماڈل اور اقدار کے نظام کی برآمد کی کوئی تاریخ نہیں لیکن مغرب اب بھی ایک حریف طاقت کے طور پر اِسے اُبھرنے سے روکنے کے لئے پرعزم نظر آتا ہے۔ وقت کی آزمودہ حکمت عملی پر انحصار کرتے ہوئے وہ جان بوجھ کر بحیرہ جنوبی چین اور تائیوان میں اِسے اُکسا رہا ہے۔ خطے میں بھاری فوجی موجودگی اور تائیوان کو انتہائی جدید ہتھیاروں کی فراہمی کے ذریعے امریکہ نے عملی طور پر چین کے خلاف سرد جنگ کا آغاز کر دیا ہے تاکہ اس کے اعصاب (صبر و برداشت) کو آزمایا جا سکے اور چین کے وسائل ضائع کئے جا سکیں۔ رواں برس فروری میں ہی تائیوان نے پیٹریاٹ میزائل دفاعی نظام کو اپ گریڈ کرنے کے لئے ایک سو ملین ڈالر کے سازوسامان اور خدمات کی فروخت کی منظوری دی تھی۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کا مقابلہ کرنے کے لئے چین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ صرف ایک ملک کی معاشی یا فوجی طاقت نہیں بلکہ عالمی اتحاد اور شراکت داری ہے جو آج دنیا کے واقعات کا رخ متعین کرتی ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا کردار اس دعوے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ میدان جنگ میں بہت سی کامیابیوں کے باوجود روس اپنے دشمن کے لئے امریکہ اور نیٹو کی حمایت کی وجہ سے اپنی دہلیز پر ایک جنگ میں مصروف ہے۔ چین امریکہ کی طرح لامحدود وسائل نہیں رکھتا بلکہ یہ ایک تجارتی اور صنعتی ملک ہے جس کی مہارت مینوفیکچرنگ (اشیا سازی) میں ہے اور چین کی معیشت بڑی حد تک امریکہ اور مغربی ممالک کو برآمدات کی وجہ سے توانا ہے اور پھل پھول رہی ہے لہٰذا روس جیسے ممالک کے ساتھ قریبی شراکت داری قائم کئے بغیر چین امریکہ کے منصوبے ناکام نہیں بنا سکتا۔ امریکہ چین کا محاصرہ کئے ہوئے ہے اور چین کے خلاف وقتاً فوقتاً اشتعال انگیزی کرتا ہے جس میں آنے والے ہفتوں مہینوں میں شدت کا امکان ہے اور چین امریکی قیادت والی مغربی حکمت عملی کا نشانہ رہ سکتا ہے۔ (مضمون نگار پاک بھارت اور علاقائی امور کے معروف تجزیہ کار ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: صبور علی سیّد۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)