پاکستان مشکل حالات سے گزر رہا ہے اور درپیش معاشی بحران اپنی شدت میں اگرچہ زیادہ ہے لیکن اِس کا موازنہ دسمبر 1971ء کے حالات سے نہیں کیا جاسکتا‘جب مشرقی پاکستان کے سقوط کی صورت ملک دو لخت ہوا اور منتخب وزیراعظم کا عدالتی قتل کیا گیا اِن واقعات کے بعد سے ہماری حالت افسوس ناک رہی ہے۔ اِن خراب حالات سے نکلنے کے راستے موجود ہیں لیکن ان راستوں پر چلنے کیلئے ہمت درکار ہے‘ عام آدمی ماضی کی طرح آج بھی قربانیاں دے رہا ہے اور ملک و قوم کیلئے مزید قربانیاں دینے کو تیارہے لیکن اگر اِسے رہنمائی میسر نہیں‘ اِن حالات میں دانشور طبقات کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک و قوم کو الجھن سے نکالنے‘خراب حالات سے نکلنے میں مدد کریں‘ فی الوقت ملک کا ہر بڑا ادارہ اور طاقتور گروہ چاہے وہ حکومت ہو یا فوج‘ خفیہ ادارے ہوں یا عدلیہ‘ پارلیمنٹ ہو سیاسی رہنما اور سیاسی جماعتیں‘ ذرائع ابلاغ ہوں یا تعلیم و صحت کے منتظم ادارے‘ سرکاری ملازمین ہوں یا کاروباری اشرافیہ وغیرہ سب ہی قوم کو بحران سے نکالنے میں ناکام ہوچکے ہیں‘قوم کے بنیادی مجرموں کا سب کو علم ہے لیکن انہیں اس کی کوئی پروا نہیں۔رحلت سے قبل اپنی زندگی کے آخری ایام میں بانیئ پاکستان قائد ِاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے راجا صاحب محمود آباد کو کہا تھا کہ ”میں غداروں سے گھرا ہوا ہوں“ اور یہ صورتحال آج بھی زیادہ مختلف دکھائی نہیں دے رہی۔ پاکستان کا کوئی بھی دشمن ملک ہمیں اِس قدر نقصان پہنچانے کی ہمت نہیں کر سکتا جس قدر ہمارے نام نہاد مسیحاؤں نے کیا ہے جو ایک جانب اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں جبکہ دوسری جانب قومی سلامتی اور اقتصادی استحکام کی باتیں کرتے ہیں‘ ملک میں غربت بڑھ رہی ہے۔ اب سوالات کا وقت گزرچکا ہے‘ اب صرف جوابات دینے کا وقت ہے اور جوابات بھی اقدامات اور منظم تحاریک کی صورت میں دینے کی ضرورت ہے۔ یہاں سماج اور حقوق کے ایسے سرگرم کارکن‘ کاروباری اور پیشہ ورانہ افراد موجود ہیں جو صورت حال میں تبدیلی لاسکتے ہیں۔ ملک میں تبدیلی کی رفتار تیز کرنے کیلئے انہیں متحد اور ایک دوسرے کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کو ایسے خادم چاہئیں جو ان کی خدمات میں پیش پیش رہیں۔ ایک مقبول رہنما ”ووٹ بینک“ کی جانب توجہ دیتا ہے اور عوام کو رعایا کے طور پر دیکھتا ہے جبکہ ایک حقیقی رہنما شہریوں کی خدمت کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم پاکستان کیلئے کیا کچھ کر سکتے ہیں؟ جواب ہے ”بہت کچھ۔“ ہر پاکستانی کو اپنے آپ سے سوال کرنا چاہئے کہ وہ اِس وقت ملک کیلئے کیا کرسکتا ہے‘ جب ہر پاکستانی ملک و قوم کیلئے کچھ کرنے کا ارادہ کر لے تو اِسکے بعد کسی سے بھی رابطہ کرے‘ کسی بھی جگہ اپنے خیالات کا اظہار کرے‘ جو بھی گفتگو کرے چاہے اختلاف کرے یا اتفاق کرے لیکن وہ اپنے عزم کو عملی جامہ ضرور پہنائے گا‘ یہی آج کے پاکستان کی ضرورت ہے اگر عوام کچھ کرنے کیلئے آمادہ ہو جائے تو پاکستان میں انقلابی تبدیلی آ سکتی ہے اور یہ عمل پائیدار ترقی و کامیابی کا ضامن بھی ہو گا‘ یوں ہمارے دشمن بھی اپنے عزائم سے پیچھے ہٹنے لگیں گے آئین یا انتخابات کا بحران اہم تو ہے لیکن یہ ثانوی نوعیت کا ہے‘بنیادی مسئلہ اِس وقت ہمارے حکمرانوں کے غلط اقدامات کی وجہ سے بڑھتا ہوا موسمیاتی تبدیلی کا خطرہ ہے جو‘ ہر گزرتے سال کیساتھ مزید بڑھ رہا ہے جب تک درست طرز پر حکمرانی نہیں کی جائیگی تب تک عام انتخابات کی صورت میں یونہی ہمارے جمہوری نظام کا مذاق اڑایا جاتا رہے گا‘پہلے سے لاحق وجودی خطرات ہمارے وجود کو ہی ختم کردیں گے حکمرانی دراصل عزم‘ اہلیت‘ ترجیحات‘ اصلاحات‘ وسائل‘ ردعمل‘ معلومات اور ملکیت کے عمل کا نام ہوتی ہے عوام کے پاس تبدیلی لانے کیلئے بڑے پیمانے پر اہلیت موجود ہے لیکن انہیں موجودہ نظام اور اشرافیہ کے دھوکے کے مقابلے میں متحرک ہونا ہوگا تاکہ اپنا اور اپنی آنیوالی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنایا جا سکے‘پاکستان کو بچانے کیلئے ہمیں اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی‘اصولی اور حقیقت پسندانہ پالیسیاں قومی بقاء‘ تخلیق نو اور خوشحالی میں معاون ثابت ہوتی ہیں‘ خارجہ پالیسی کے یہ پہلو ”امن سے بھی مشروط ہیں“ مسئلہ کشمیر جہاں ایک اصولی معاملہ ہے وہاں یہ انسانی حقوق کا چیلنج بھی ہے۔ پاکستان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو استوار کرے تاکہ کشمیر میں انصاف کی فراہمی اور بھارت کے ساتھ کثیرالجہت تعاون کی فراہمی کے امکانات کو سیاسی طور پر ممکن بنایا جاسکے اصولی سمجھوتے کے طریقے کو اختیار کرکے ہم باہمی تعاون کے امکانات کو بڑھا سکتے ہیں ملکی وسائل کو منفی سے مثبت سطح پر لاسکتے ہیں اور سکیورٹی کے اخراجات میں کمی کرسکتے ہیں اسی طرح بہتر روابط قائم کرنے سے باہمی سطح پر نفرت انگیز بیانیے کو بھی ابھرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ حالیہ دور میں ایسی کوئی وجہ نہیں ہے جس کی بنیاد پر پاکستان بھارت کے ساتھ جنگ نہ کرنے کے معاہدے پر بات چیت کیلئے آمادہ نہ ہو کشمیر کے حوالے سے کسی مفاہمت تک پہنچنے کیلئے اس طرح کے اقدام سے بڑی مدد مل سکتی ہے‘ کشمیری عوام کی حمایت کی خاطر بات چیت سے انکار کرنے سے ہم کشمیری عوام کی کوئی مدد نہیں کررہے ہیں‘ہمارے سامنے افغانستان کی مثال موجود ہے جہاں خارجہ پالیسی کو ہائی جیک کرنے سے سیاسی تباہی کا سامنا کرنا پڑا‘پاکستان کی افغانستان کے حوالے سے پالیسی بھارت کیلئے تحفہ ثابت ہوئی‘افغانستان کی آزادی کا احترام و اعتماد حاصل کرنا اس کیساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کا راستہ ہے جبکہ اس سے وسطی ایشیا اور ایران کے ساتھ علاقائی تعاون کے امکانات بھی وسیع ہوں گے‘ ہمیں چاہئے کہ ہم پاکستان کے شہریوں کیلئے جو کچھ چاہتے ہیں وہی افغانستان کے شہریوں کیلئے بھی چاہیں‘پاکستان کو ایک بڑے ہمسائے کے طور پر فراخدلی کا مظاہرہ کرنا چاہئے‘افغانستان کو ہمارے عمل سے محسوس بھی ہونا چاہئے کہ پاکستان کس قدر سنجیدہ ہے‘ امریکہ نے چین کے عالمی حریف کے طور پر ابھرنے کو روکنے کی کوششوں میں عالم گیریت کے تصور کو ہی پلٹ دیا ہے‘ڈی گلوبلائزیشن کی جانب جاتی اس دنیا میں پاکستان کو اپنے خطے یعنی ایشیا میں اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کو ترجیح دینا ہوگی‘چین بھی ایشیا میں ہی ہے اور وہ پاکستان کا دیرینہ دوست ثابت ہوا ہے لیکن ایک معاشی طور پر مشکلات میں گھرا ہوا پاکستان چین کیساتھ تعلقات سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اُٹھا پائے گا‘ اسکے مقابلے میں امریکہ کی پاکستان کے حوالے سے پالیسیوں کی بنیاد پاکستان کا ایک معاشی طور پر ناکام ریاست کی صورت میں ابھرنا ہے‘پاکستان کیلئے امریکہ کی اہمیت اپنی جگہ لیکن پاکستان کو امریکہ کیساتھ اپنے تعلقات کی بنیاد تبدیل کرنا ہوگی۔ بشکریہ: ڈان۔ تحریر: اَشرف جہانگیر قاضی‘ترجمہ: اَبوالحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام