مقامی حکومت (بلدیاتی نظام) کیوں ضروری ہے؟ ورلڈ بینک نے اپنی 1997ء کی رپورٹ میں اِس بات پر زور دیا ہے کہ عوام کی منتخب بلدیاتی حکومتیں اُس وقت زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہیں جب وہ کاروباری اداروں اور شہریوں کی شنوائی کرتی ہیں اور فیصلہ سازی سے قبل عوام کی توقعات پر پورا اُترتی ہیں یعنی ایک ایسا نظام حکومت جس میں فیصلہ سازی عوام کی توقعات کے مطابق کی جائے لیکن جہاں حکومتی سطح پر فیصلہ سازی کرتے ہوئے ’عوامی رائے‘ کو خاطرخواہ اہمیت نہ مل رہی ہو وہاں عوام کے مفادات کا تحفظ نہیں ہو پاتا۔ عوام اور حکومت کے درمیان رابطہ اور ایک دوسرے کو جوابدہی کے بعد ’اچھی حکمرانی‘ کو فروغ دینے میں بلدیاتی نظام مؤثر ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔ ورلڈ ڈویلپمنٹ رپورٹ (ڈبلیو ڈی آر 2004ء) میں یہ دلیل دی گئی ہے کہ مقامی برادریوں اور پسماندہ سماجی گروہوں کے تئیں حکومتی کارکردگی کا بہتر احتساب ممکن بنایا جا سکتا ہے اور عوامی نمائندوں کو انتخابی طور پر عوام کے سامنے جوابدہ بنایا جا سکتا ہے۔ صوبہ پنجاب کا کل رقبہ 2 لاکھ 5 ہزار 300 مربع کلومیٹر جبکہ آبادی ایک کروڑ دس لاکھ (ایک سو دس ملین) ہے۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے اِس بڑے صوبے میں عوام کو بنیادی سہولیات اور ضروری خدمات کی فراہمی سے متعلق شہریوں کی مختلف ضروریات کو کسے پورا کیا جا سکتا ہے جبکہ ہر ضلع میں رہنے والوں کی الگ الگ ضروریات اور تقاضے ہیں؟ اسلام آباد‘ لاہور‘ کراچی‘ پشاور اور کوئٹہ جیسے اقتدار کے صوبائی مراکز میں حکومتی اختیارات مرکوز کرنے کی وجہ سے عوام کو ملنے والی خدمات کا معیار اور مقدار کم ہے اور وفاقی و صوبائی حکومتیں باوجود کوشش بھی عوام کی توقعات پر پورا نہیں اُتر رہیں۔ ایک تحقیق سے پاکستان کے ایسے 80 اضلاع کی نشاندہی ہوئی ہے جہاں کے رہنے والے عام شہری بنیادی ضروریات و سہولیات سے محروم ہیں۔ مقامی حکومتوں کے قیام سے معاشرے میں اعتماد اور ہم آہنگی کو فروغ ملے گا‘ موثر اور منصفانہ طریقے سے بنیادی عوامی خدمات کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے گی۔ یہ نتائج نہ صرف مقامی سطح پر اضافی وسائل کو متحرک کرنے میں مدد دیں گے بلکہ وسائل کے استعمال کو بھی بہتر بنائیں گے۔مقامی حکومتوں کے قیام سے حکومت اور عوام کے درمیان رشتے کو مضبوط کیا جا سکتا ہے‘ جس سے عدم اِطمینان کی موجودہ صورتحال تبدیل کی جا سکتی ہے۔ اگر شہریوں کو روزمرہ استعمال کی عمومی اشیا اور خدمات نچلی سطح پر دستیاب ہوں تو مقامی برادریاں اپنے مسائل اور ان کے حل کسی اور سے کہیں زیادہ بہتر جانتی ہیں اُور اجتماعی عوامی بصیرت پر اعتماد کرنے میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ مقامی حکومتوں کے ذریعے غربت کی شرح میں بھی کمی لائی جا سکتی ہیں کیونکہ مقامی حکومتیں اپنے اپنے حلقہئ انتخاب میں خط ِغربت سے نیچے یا آمدنی کے لحاظ سے دیگر طبقات کی ضروریات اور اُن کی تعداد سے بہتر آگاہ ہوتی ہے۔سال 2001ء سے سال 2009ء کے درمیانی عرصے کے دوران جو بلدیاتی نظام متعارف و تجربہ کیا گیا اُس کا معروضی جائزہ لینا مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ سال دوہزار ایک کے بلدیاتی نظام میں بہت سی خامیاں تھیں جن میں یہ حقیقت بھی شامل تھی کہ امن و امان‘ ریونیو ریکارڈ اور لینڈ ایڈمنسٹریشن اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے فرائض غیر جانبدار سرکاری ملازمین کے پاس رہنے چاہئیں اور ناظموں کو منتقل نہیں کئے جانے چاہئیں‘ مقامی حکومتوں کے نوے فیصد سے زائد اخراجات صوبائی حکومتوں کی طرف سے ملنے والے مالی وسائل سے کئے جاتے ہیں۔ صوبائی بجٹ میں مقامی حکومتوں کا حصہ تقریبا چالیس فیصد جبکہ مجموعی سرکاری اخراجات میں حصہ صرف تیرہ فیصد رہا‘مقامی حکومتوں کو ترقیاتی امور کے لئے مختص صوبائی اور وفاقی بجٹ ملنا چاہئے تاکہ فوری ترقی عوام کی توقعات اور ضروریات کے مطابق سرانجام پائے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عشرت حسین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام