سیاست بمقابلہ سیاست

کسی ذہین شخص کا قول ہے کہ ”سیاست اختلافات سے اختلافات کے درمیان کا سفر ہے۔“ سیاستدان اگر ایک دوسرے کو اپنا حریف (مدمقابل) نہ سمجھیں تو اِسی سیاست سے خیر کے پہلو نکل سکتے ہیں۔ سیاست دان اگر ایک دوسرے کو اپنا دشمن نہ سمجھیں تو اِس سے بھی بداعتمادی پر مبنی صورتحال بڑی حد تک تبدیل ہو سکتی ہے۔ ہمارے کچھ جمہوریت پسند سیاستدان ایک دوسرے کو جمہوری حریف نہیں سمجھتے اور یہی خرابی کی جڑ ہے۔ یہ سب اپنے اپنے مخالفین کو جیل میں بند دیکھنا چاہتے ہیں چونکہ ہمارے جمہوریت پسند سیاستدان ایک دوسرے کو جمہوری مخالف نہیں سمجھتے اور یہی وجہ ہے کہ یہ ایک دوسرے کا نام و نشان مٹانے پر تلے رہتے ہیں جو سراسر منفی رویہ ہے۔ملک کی سیاسی و معاشی استحکام کے لئے دو چیزیں درکار ہوتی ہیں۔ ایک طویل مدتی منصوبہ بندی اور دوسرا زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری۔ جب تک اِن دونوں محرکات کا بندوبست نہیں ہو جاتا اُس وقت تک سیاست کا کوئی بھی اسلوب نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو گا۔ معاشی ترقی کے لئے ’بوٹسوانا‘ کی مثال دیکھی جا سکتی جو ایک چھوٹا سا افریقی ملک ہے اور اِس نے سال 1966ء میں آزادی حاصل کی تھی۔ ’بوٹسوانا‘ کے قیام سے وہاں ایک مستحکم حکومت رہی ہے اور اس کے نتیجے میں مثالی معاشی ترقی دیکھنے میں آئی ہے۔ جی ہاں‘ سیاسی استحکام نے ’بوٹسوانا‘ کو دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک میں تبدیل کر دیا ہے۔ اِسی طرح لاطینی امریکہ کے ملک ”چلی“ میں بھی سیاسی استحکام مثالی ہے جہاں وقت کے ساتھ معاشی ترقی اور غربت میں کمی آئی ہے۔ ”چلی“ نے سیاسی استحکام کے ذریعے معاشی ترقی حاصل کی۔ جنوبی کوریا ایک ایسے ملک کی ایک اور مثال ہے جس نے سیاسی استحکام کے ذریعے معاشی ترقی کا تجربہ کیا۔ سنگاپور سیاسی استحکام کی وجہ سے معاشی ترقی کی شاندار مثال ہے اور سنگاپور کے سیاست دانوں نے اپنے ملک کو دنیا کے امیر ترین ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔ سیاسی عدم استحکام سے چار مختلف قسم کے نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ اِس سے معاشی غیر یقینی کی صورتحال حاصل ہوتی ہے۔ معاشرے میں اتار چڑھاؤ آتا ہے۔ سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی آتی ہے اور معیشت پر جمود طاری رہتا ہے۔ وینزویلا اِس کی ایک مثال ہے جس کے پاس دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ تیل کے ذخائر موجود ہیں جو مجموعی طور پر 304 ارب بیرل ہیں لیکن وینزویلا میں سیاسی افراتفری اور بدامنی پائی جاتی ہے جس کا نتیجہ ہے کہ وہاں مہنگائی (افراط زر) زیادہ ہے۔ سرمایہ کاری میں کمی ہے۔ بنیادی اشیائے ضروریہ کی قلت ہے اور معیار زندگی زبوں حالی سے دوچار ہے۔ یہی صورتحال زمبابوے کی ہے جہاں کوئلے‘ تانبے‘ لوہے‘ وینیڈیم‘ ٹن‘ پلاٹینم‘ لیتھیم اور نکل کے ذخائر ہیں۔ زمبابوے قدرت کی طرف سے دیئے گئے انعامات سے مالا مال ہے لیکن وہاں متنازعہ صدارتی انتخابات اور سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں افراط زر میں اضافہ‘ غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی اور معیار زندگی میں گراوٹ آئی ہے۔ جمہوری ملک کانگو سے بھی سبق سیکھا جا سکتا ہے جہاں طویل عرصے سے عام انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے خانہ جنگی اور سیاسی عدم استحکام جاری ہے۔ کانگو میں کان کنی اور زراعت جیسے اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کا فقدان ہے۔ یہی صورتحال عراق کی ہے جو سعودی عرب کے بعد 145 ارب بیرل خام تیل پیدا کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے لیکن وہاں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے  تشدد‘ سیاسی بدامنی اور معاشی جمود طاری ہے۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی صورتحال اگرچہ زیادہ خراب نہیں لیکن اِس کی وجہ سے قومی ترقی متاثر ہے۔ پاکستان چین‘ بھارت اور امریکہ کے بعد چوتھا ایسا بڑا ملک ہے جس کے پاس آبپاشی کا بہترین نظام اور کاشتکاری کے لئے بہترین زمینی علاقہ موجود ہے۔ مزید برآں پاکستان کپاس کی پیداوار میں چوتھے‘ گنے کی پیداوار میں چوتھے اور دودھ کی پیداوار میں دنیا کا پانچواں ملک ہے۔ مزید برآں‘ پاکستان عالمی سطح پر چھٹا سب سے بڑا کھجور پیدا کرنے والا اور آٹھواں سب سے بڑا گندم پیدا کرنے والا ملک ہے۔ پاکستان کے پاس 105 کھرب کیوبک فٹ گیس کے ذخائر ہیں۔ ریکوڈک کے پاس 5.9 ارب ٹن تانبا اور 41.5 ملین اونس سونا (گولڈ) ہے۔ پاکستان دنیا کا دوسرا سب سے بڑا نمک کا ذخیرہ رکھتا ہے اور پاکستان میں پن بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ساٹھ ہزار میگاواٹ سے زیادہ ہے!  لیکن اِن سب وسائل سے خاطرخواہ استفادہ نہیں ہو رہا کیونکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پایا جاتا ہے جو پاکستان کا بنیادی مسئلہ ہے۔ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کا مسئلہ معاشی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ ہمارے معاشی مسائل کی جڑ سیاسی عدم استحکام میں ہے اور پاکستان کو درپیش چیلنجوں کا حل سیاست دانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)