محصول (ٹیکس) اور مہنگائی (افراط زر)

فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ کے دوران 4493 ارب روپے کے خالص محصولات (ٹیکسوں) کی وصولی کا دعویٰ کیا ہے جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 3820 ارب روپے تھے یعنی گزشتہ مالی سال کے پہلے چار ماہ کے مقابلے 18 فیصد زائد ٹیکس اکٹھا کئے گئے ہیں۔ تاریخ کی اِس بلند ترین ٹیکس وصولی کو جاری رکھتے ہوئے ’ایف بی آر‘ کو آئندہ چار ماہ میں ہر ماہ 787 ارب روپے جمع کرنے ہیں۔  فنانس سپلیمنٹری ایکٹ 2022ء کی روشنی میں مالی سال 2022-23ء کیلئے ٹیکس جمع کرنے کا ہدف 7470 ارب روپے سے بڑھا کر 7641 ارب روپے کر دیا گیا ہے تاہم فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافے اور جنرل سیلز ٹیکس کی شرح بھی ایک فیصد بڑھانے کے باوجود ’ایف بی آر‘ نے فروری دوہزارتئیس کیلئے مقررہ ماہانہ ہدف ’527 ارب روپے‘ پر نظر ثانی نہیں کی۔ ’ایف بی آر‘ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ عبوری اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے سینتالیس ماہ کے دوران براہ راست ٹیکس وصولی میں ’235 فیصد‘ اضافہ ہوا ہے جو معاشرے کے امیر اور خوشحال طبقوں پر ٹیکس کا بوجھ منتقل کرنے اور ٹیکسوں کو ترقی پسند اور منصفانہ بنانے کی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے‘ دوسری بات یہ ہے کہ ’ایف بی آر‘ نے برآمدکنندگان کے تحفظات بڑی حد تک دور کئے ہیں اور مالی سال کے پہلے 8 ماہ کے دوران 235 ارب روپے کے ریفنڈ ادا کئے گئے ہیں‘ یہ ریفنڈ ہر سال قریب 19 فیصد کے تناسب سے بڑھ رہے ہیں۔ ایف بی آر کی پریس ریلیز میں انکم ٹیکس‘ سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں وصولی کی الگ الگ تقسیم نہیں کی گئی جبکہ اطلاعات کے مطابق مالی سال 2022-23ء کے پہلے آٹھ ماہ کیلئے کل وصولی کا 53 فیصد بالواسطہ (indirect) ٹیکسوں سے وصول ہوا ہے‘ یہاں تک کہ انکم ٹیکس کے تحت بھی زیادہ تر وصولی ایڈوانس ٹیکسوں سے ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے کاروبار اور لین دین کی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو معیشت کی موجودہ غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے پہلے ہی سنگین مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں ایف بی آر کے بالواسطہ ٹیکسوں پر انحصار کی تصدیق کرتے ہوئے اٹھائیس فروری دوہزارتئیس تک انکم ٹیکس کی وصولی 1.96 کھرب روپے بتائی گئی ہے 
اگرچہ یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ ’ایف بی آر‘ نے انکم ٹیکس کے سالانہ ہدف سے 47 ارب روپے زیادہ وصول کیا ہے لیکن اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ اس مد میں وصولی 39.9 ارب روپے تھی‘ جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ’اِنکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء‘ میں ’ود ہولڈنگ‘ کی بہت سی شقیں بالواسطہ ٹیکسوں کی نوعیت کی حامل ہیں جو نہ صرف تنخواہ دار طبقے اور غریبوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں بلکہ اِن کی وجہ سے ماہ فروری کے دوران مہنگائی 31.5 فیصد جیسی بلند شرح تک جا پہنچی اُور اِس میں مزید اضافہ ہونے کے امکانات واضح ہیں‘ دوسری طرف حکومت کی خواہش ہوتی ہے کہ بجلی و گیس کی قیمتیں کم ہوں تاکہ پیداواری اخراجات کم ہونے کی صورت میں مہنگائی کم ہو لیکن جب وہ ایندھن پر ٹیکسوں میں اضافہ کرتے ہیں تو اِس سے مہنگائی بڑھتی ہے‘ یکم مارچ کے روز بجلی کے ہر یونٹ پر 3.23 روپے مستقل سرچارج نافذ کیا گیا۔ اِسی طرح ’ایف بی آر‘ سیلز ٹیکس کی مد میں ہر بل کی مالیت کے 100 فیصد پر وصولی کرتا ہے جبکہ ریکوری یا دوسری صورت میں وصولی کو ذہن میں نہیں رکھا جاتا‘ تمام خوردہ فروش (retailers) بجلی کے کمرشل کنکشن رکھتے ہیں لیکن انہیں اُس درجے میں شامل نہیں کیا جاتا جن کے بجلی بلوں پانچ فیصد سیلز ٹیکس عائد ہوتا ہے جبکہ وہ بیس ہزار روپے سے تجاوز نہ کریں اور اگر اُن کا ماہانہ بل بیس ہزار روپے سے تجاوز کر جائے تو کل ماہانہ بل میں ساڑھے سات فیصد اضافہ ٹیکس عائد ہوتا جبکہ غیردستاویزی خوردہ فروشوں کو مزید تین فیصد ٹیکس دینا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب کسی کاروبار پر ٹیکسوں کی شرح بڑھائی جائے گی تو اِس کا اثر صارفین پر مرتب ہوگا اور صارفین ہی کو کسی نہ کسی صورت ادائیگی کرنا ہوتی ہے‘مالی سال 2021-22 ء میں بجلی کے بلوں پر عائد سیلز ٹیکس سے 149.5 ارب روپے وصول ہوئے تھے 
جبکہ پیٹرولیم مصنوعات سے سیلز ٹیکس کی مد میں 107 ارب روپے وصول ہوئے‘ ود ہولڈنگ شقوں کے ذریعے یہ بالواسطہ ٹیکس چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں پر ایک بڑا بوجھ ہیں لیکن ایف بی آر یا اقتصادی مشاورتی کونسل (ای اے سی) کے اراکین کی جانب سے کسی تحقیق یا وزیر اعظم کو دی جانے والی بریفنگ میں اس کا ذکر کبھی نہیں کیا جاتا‘ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے مطابق اکتیس جنوری دوہزارتیئس تک پاکستان میں موبائل فون استعمال کرنیوالے کی کل تعداد 193 ملین ہے جن میں سے 123 ملین انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں‘ پاکستان میں ایک لاکھ فکسڈ ٹیلی فون صارفین ہیں‘ 56 ملین صارفین براڈ بینڈ استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح اس وقت پوری قابل ٹیکس آبادی اور یہاں تک کہ وہ لوگ جن کی آمدنی قابل ٹیکس حد سے کم نہیں ہے وہ پری پیڈ یا پوسٹ پیڈ موبائل صارفین کے طور پر ایڈوانس اور ایڈجسٹ ایبل پندرہ فیصد انکم ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ تقریبا 110 ملین موبائل صارفین ایڈوانس یا ایڈجسٹ ایبل انکم ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔تیرہ مارچ دوہزارتئیس کو ’اپ ڈیٹ‘ کی گئی ’ایف بی آر‘ کی ایکٹو ٹیکس دہندگان کی فہرست کے مطابق کل انکم ٹیکس فائلرز 33 لاکھ (3.3ملین) تھے۔ ایف بی آر ٹیکس کے بڑے فرق کو پر کرنے کیلئے تمام قابل ٹیکس افراد کی رجسٹریشن کرے اور غریب ترین افراد سے پندرہ فیصد ظالمانہ ٹیکس وصول کرنا بند کرے‘ نو مارچ دوہزارتئیس کو ختم ہونے والے ہفتے سے متعلق ’پاکستان بیورو آف شماریات کی جانب سے جاری کردہ حساس قیمت انڈیکیٹر  کے مطابق مہنگائی بڑھ کر 42.27 فیصد ہوچکی ہے‘ پیاز کی قیمتوں میں تقریبا 305 فیصد اضافہ ہوا ہے‘ انڈوں کی قیمتوں میں 78.63 فیصد‘ ٹوٹے ہوئے چاول کی قیمتوں میں 78.14 فیصد اور گندم کی قیمتوں میں 82فیصد غیرمعمولی اضافہ عام آدمی کی قوت خرید کو متاثر کر رہا ہے شہروں کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں غذائی افراط زر نسبتاً زیادہ ہے اور اِس میں اضافے کی شرح بھی زیادہ ہے‘ دیہی علاقوں میں مہنگائی 47 فیصد اور شہروں میں 42 فیصد تک پہنچ چکی ہے‘ اِس صورتحال میں ٹیکس بیس کو وسیع کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر اکرام الحق۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)