ترقی پذیر ممالک میں سماجی و اقتصادی ترقی کا عمل ایک مشکل کام ہے۔ تاہم چین کی کامیابیوں سے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔ انسانی تاریخ میں کبھی بھی اتنی جلدی لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی نہیں آئی۔چین کو چار دہائیاں قبل احساس ہوا کہ سماجی و اقتصادی ترقی کی کلید زیادہ تر اس کی اعلی ٹیکنالوجی (ہائی ویلیو ایڈڈ) اشیاء کی تیاری اور برآمد کرنے کی صلاحیت پر منحصر ہے۔ لہٰذا، احتیاط سے منتخب کردہ شعبوں میں تحقیق اور ترقی کو اعلی ترین قومی ترجیح دی گئی۔2000 ء اور 2022 ء کے درمیان R&D کے اخراجات میں سالانہ 18 فیصد کا غیر معمولی اضافہ ہوا۔ نتیجتاً، چین نے 2020 میں جدت طرازی میں عالمی رہنما کے طور پر امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا، اور اب امریکہ کے مقابلے میں سالانہ دائر کردہ بین الاقوامی پیٹنٹ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن کے مطابق گزشتہ 20 سالوں کے دوران چین کی جانب سے دائر بین الاقوامی پیٹنٹ کے اعداد و شمار میں حیران کن طور پر 200 گنا اضافہ ہوا ہے۔جدت اور کاروبار کو فروغ دینے کے لئے سپارک پروگرام کی خاص اہمیت تھی۔ اس نے چین کی تکنیکی ترقی اور اقتصادی ترقی کی بنیاد رکھی۔ سپارک پروگرام نے غیر ملکی یونیورسٹیوں اور کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ تحقیقی منصوبوں کے لئے فنڈ فراہم کرکے بین الاقوامی تعاون کی بھی حوصلہ افزائی کی۔ اس سے چین اور باقی دنیا کے درمیان پل بنانے میں مدد ملی اور ٹیکنالوجی کی منتقلی اور علم کے تبادلے میں مدد ملی۔چین نے بیجنگ میں Zhongguancun سائنس پارک اور شنگھائی میں Zhangjiang ہائی ٹیک پارک سمیت کئی اختراعی مراکز قائم کئے ہیں۔ یہ اختراعی مراکز اہم اُبھرتے ہوئے خلل ڈالنے والے شعبوں میں جدید ٹیکنالوجی پر خاص زور دینے کے ساتھ سٹارٹ اپس اور کاروباری افراد کو آزادانہ فنڈنگ اور تکنیکی مدد فراہم کر رہے ہیں۔ یہ پروگرام قومی جدت کی پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت سٹارٹ اپس کو ٹیکس مراعات فراہم کی جاتی ہیں اور ایس ایم ایز کو لبرل فنڈنگ فراہم کی جاتی ہے۔نیشنل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے بڑے پروجیکٹ مینجمنٹ کے اقدامات پہلی بار 1997 ء میں نافذ کیے گئے تھے اور 2019 میں اپ ڈیٹ کیے گئے تھے۔ وہ بڑے سائنس اور ٹیکنالوجی کے منصوبوں کے انتظام کے لئے ایک فریم ورک قائم کرتے ہیں، بشمول دانشورانہ املاک کے تحفظ اور ٹیکنالوجی کی منتقلی، پیٹنٹ قانون اور عوامی جمہوریہ چین کا کاپی رائٹ قانون سب سے پہلے بالترتیب 1984 اور 1990 میں نافذ کیا گیا تھا، اور اس کے بعد انہیں کئی بار اپ ڈیٹ کیا گیا ہے۔چین کی جانب سے سائنس، ٹیکنالوجی اور اعلی تعلیم کو مضبوط بنانے کے لئے کئی دیگر اقدامات بھی شروع کیے گئے۔ 973 پروگرام، جسے نیشنل بیسک ریسرچ پروگرام کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، 1997 میں شروع کیا گیا جس نے بائیو ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، اور ماحولیاتی سائنس جیسے اہم شعبوں میں بنیادی تحقیق کے لئے فنڈ فراہم کیا۔ 863 پروگرام، جسے نیشنل ہائی ٹیک ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پروگرام بھی کہا جاتا ہے، 1986 میں شروع کیا گیا، جس نے ہائی ٹیک شعبوں جیسے ایرو سپیس انجینئرنگ، توانائی اور ٹیلی کمیونیکیشن میں تحقیق اور ترقی کے لئے فنڈ فراہم کیا۔2006 میں شروع کئے گئے نیشنل انوویشن سسٹم کا مقصد یونیورسٹیوں، تحقیقی اداروں اور صنعت کے درمیان روابط کو بہتر بنا کر اختراع کو فروغ دینا تھا۔ چانگ جیانگ سکالرز پروگرام کا آغاز 1998 میں کیا گیا تھا اور اس کا مقصد دنیا بھر کے سرکردہ سکالرز کو چینی یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں کام کرنے کے لئے راغب کرنا تھا۔پاکستان کو آگے بڑھنے اور چین کی تیز رفتار سماجی و اقتصادی ترقی کی تقلید کیلئے‘اسکے پاس موثر حکمت عملی ہونی چاہئے۔
(بشکریہ دی نیوز، تحریر:ڈاکٹر عطاء الرحمان،ترجمہ: ابوالحسن امام)