غذائی عدم تحفظ

اقوام متحدہ کے زیر اہتمام چلنے والے (ذیلی ادارے) ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھوک دنیا کا ”نیا معمول“ ہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والے ”گلوبل آپریشنل رسپانس پلان 2022ء“ میں خبردار کیا گیا ہے کہ دنیا کو جدید تاریخ کے سب سے اہم غذائی بحران کا سامنا ہے‘ جس سے کروڑوں افراد غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ تعداد سال دوہزاربیس میں غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد کے دگنی سے بھی زیادہ ہوگی۔ اس ”نیو نارمل (نئے معمول)“ کی ابتدا ”ٹرپل سی“ بحران سے ہوئی ہے۔ یوکرین میں جاری تنازعہ جس نے عالمی سطح پر خوراک اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے‘ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں کم زرعی پیداوار (اور قوت خرید میں کمی) اور کورونا وبائی مرض کی وجہ سے اجناس کی نقل و حمل (سپلائی چین) میں خلل آیا ہے۔ ’ڈبلیو ایف پی‘ نے اپنی رپورٹ میں اِن تینوں عوامل پر روشنی ڈالی ہے جیسا کہ بینک قرضوں کے حصول کی لاگت میں اضافہ‘ دنیا بھر کے بیشتر ممالک میں میکرو اکنامک انڈیکیٹرز کی خرابی اور قرضوں کی غیر مستحکم مقدار جو نہ صرف امریکہ جیسی ترقی یافتہ معیشتوں کو متاثر کر رہی ہے بلکہ پاکستان جیسی ترقی پذیر معیشتوں کے لئے خطرہ ہے اور متنبہ کیا گیا ہے کہ کئی ممالک میں غذائی عدم تحفظ بڑھ سکتا ہے اور ایسے خطرے میں گھرے ممالک میں سری لنکا‘ گھانا‘ پاکستان‘ تیونس‘ مصر‘ کینیا اور لاؤس شامل ہیں۔ پاکستان کے معاملے میں‘ غذائی عدم تحفظ کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ گزشتہ موسم گرما میں پاکستان میں آنے والے سیلاب نے آٹھ لاکھ تک افراد کو غربت کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی نیشنل اکنامک رجسٹری کے مطابق سیلاب سے پہلے بھی پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ کم ماہانہ آمدنی پر گزارہ کرتے تھے۔ یہ اعداد و شمار ایک خوفناک سماجی و اقتصادی تصویر پیش کرتے ہیں۔ پاکستان کی دو تہائی آبادی کے پاس روزانہ خرچ کرنے کے لئے ایک امریکی ڈالر کا تین چوتھائی سے بھی کم حصہ ہے۔ افراط زر کے منفی اثرات چاہے افراط زر (جس میں خوراک اور ایندھن کی قیمتیں شامل ہیں) یا بنیادی افراط زر (جس میں خوراک اور ایندھن کی قیمتیں شامل نہیں ہیں) آبادی کے اس طبقے پر بوجھ ہیں جسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ افراط زر‘ ظاہر ہے کہ معیشت میں سب کو متاثر کرتا ہے کیونکہ یہ بہت سے اہم معاشی عوامل جیسا کہ شرح سود‘ صارفین کے اخراجات اور کرنسی کی قدر پر منفی اثر ڈالتا ہے اور اِس کے نتیجے میں‘ سرمایہ کاری‘ معاشی ترقی اور روزگار کی تخلیق پر شدید اثرات مرتب ہوتے ہیں تاہم کم آمدنی والے گروپ غیر متناسب طور پر افراط زر سے متاثر ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کی کھپت بنیادی طور پر بنیادی غذائی ضروریات کے لئے وقف ہے جو کہ غیر لچکدار ہے (یعنی اسے تیزی سے کم نہیں کیا جاسکتا)۔ اس طرح‘ خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے‘ کم آمدنی رکھنے والے طبقات کے پاس اپنے خاندان کی تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کے لئے بہت کم مالی وسائل رہ جاتے ہیں۔ادارہ برائے شماریات پاکستان کی جانب سے سال 2018-19ء میں کرائے گئے آخری گھریلو انٹیگریٹڈ اکنامک سروے میں کہا گیا کہ پاکستان میں ایک گھرانے کی جانب سے کھانے پینے پر ہونے والے اخراجات اس کے ماہانہ اخراجات کا اوسطا سینتیس فیصد ہیں لیکن یہ اوسط اس حقیقت کو چھپا رہی ہے کہ کم آمدنی والے گھرانوں کے لئے خوراک کے اخراجات چالیس سے پچاس فیصد تک ہوتے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے کم آمدنی والے گھرانوں کی قوت خرید کافی حد تک کم ہو گئی ہے اس لئے اِن میں سے بہت سے یا تو اپنی خوراک پر سمجھوتہ کر رہے ہیں یا تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ کمزور معاشی صورتحال پاکستان کی پہلے سے ہی کمزور غذائی تحفظ کی حالت کو آسانی سے بڑھا سکتی ہے۔   (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عابد قیوم سلہری۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)