جمہوریت: عکس‘ برعکس

 ’ٹھوس جمہوریت‘ دو چیزوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ سیاسی استحکام اور معاشی ترقی۔ گزشتہ 48 برس میں پاکستان نے 11 مرتبہ عام انتخابات دیکھے ہیں۔ جمہوریت کے ہمارے نظریئے (ویژن) نے بھی دو چیزیں پیدا کی ہیں: انتہائی سیاسی عدم استحکام اور تریسٹھ ہزار ارب روپے کا قومی قرضہ۔ جمہوریت کے ہمارے ویژن میں یقینی طور پر ’پروسیجرل ڈیموکریسی‘ کے تمام عناصر موجود ہیں: پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ‘ انتخابی فہرستوں کا ایکٹ‘ عوامی نمائندگی کے قوانین‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایکٹ‘ حلقہ بندیوں کا ایکٹ‘ صوبائی اسمبلیوں کا ایکٹ‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ایکٹ شامل ہیں۔ ایسی صورت میں جمہوریت اور جمہوری ادارے کیسے چلیں گے؟ اِس حوالے سے طریقہ کار کا پورا حساب کتاب موجود ہے لیکن اِس کی روح و معانی پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ جمہوریت کا مطلب ایک ’مثبت رقم کا کھیل‘ ہے جہاں مجموعی نفع و نقصان صفر سے زیادہ ہوتا ہے۔ ایک ’مثبت رقم کے کھیل‘ کے تحت‘ سیاسی جماعتیں اپنے حلقوں کی فلاح و بہبود کو بڑھانے کے لئے بات چیت اور تعاون کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے جمہوریت کا ہمارا ورژن ’منفی رقم کے کھیل‘ میں تبدیل ہو چکا ہے‘ جہاں مجموعی نفع اور نقصان صفر سے بھی کم ہے اور سیاسی جماعتیں ایسے طریقوں سے بات چیت کرتی ہیں جو ان کے ووٹروں کی فلاح و بہبود سے متعلق ہیں۔جمہوریت ایک ایسا مقابلہ ہے جس میں سیاسی حریف اپنے ووٹروں کی زیادہ سے زیادہ فلاح و بہبود کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ہمارے ملک میں ’پروسیجرل ڈیموکریسی‘ رائج ہے اور اِس ’پروسیجرل ڈیموکریسی‘ کے نتیجے میں ہم سیاسی عدم استحکام کا سامنا کر رہے ہیں اور اِس میں خاطرخواہ معاشی بھی ترقی نہیں ہو رہی۔ سال 2018ء کے عام انتخابات میں 5 کروڑ 30 لاکھ (53 ملین) پاکستانیوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اصولاً انتخابات کے نتیجے میں عوام کو فائدہ ہونا چاہئے لیکن ہمارے ہاں انتخابات سے اُن 1192 اُمیدواروں کو فائدہ ہوتا ہے جو انتخابی عمل کے ذریعے منتخب ہو کر آتے ہیں۔ جس دن انتخابات سے عوام کو فائدہ پہنچنے لگا اُس دن پاکستان میں ’ٹھوس جمہوریت‘ رائج ہو گی اور ایسی جمہوریت کے قیام کے لئے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہم ’ڈیموکریسی اِن ریورس“ کا سامنا کر رہے ہیں جہاں منتخب عہدیدار تمام فوائد حاصل کرتے ہیں جبکہ انتخابات کے بعد ووٹروں کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہو جاتی ہے۔ جب تک ہمارے پاس ’جمہوریت اِن ریورس‘ رہے گی‘ ہمیں لازمی طور پر سیاسی عدم استحکام اور معاشی جمود کا سامنا رہے گا۔ پاکستان اِس وقت عجیب چکر میں پھنسا ہوا ہے‘ جہاں غیر مستحکم سیاسی ماحول غیر یقینی کی صورتحال کا باعث ہے اور جس کے نتیجے میں کاروباری سرمایہ کاری میں کمی ہوئی ہے۔ کاروباری سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے معاشی کارکردگی خراب ہوتی ہے اور جب معاشی کارکردگی خراب ہو تو اِس سے عوامی بے چینی پیدا ہوتی ہے اور بالآخر حکومت تبدیل ہوتی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اس چکر کو توڑیں اور متحد ہو کر حقیقی جمہوریت کی فعالیت کے بارے میں متحد ہو جائیں۔اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ حالات حوصلہ افزاء نہیں ہے بلکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے ووٹ کے ذریعے حکومتوں کا آنا جانا مثبت اشارہ ہے تاہم زیادہ ضروری ہے کہ اس عمل کے ساتھ ساتھ عوام کی توقعات پر بھی پورا اترنے کے لئے سیاسی نظام میں اصلاحات کی جائیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)