نئے اساتذہ

سندھ حکومت نے ساٹھ ہزار اساتذہ بھرتی کئے ہیں۔ حال ہی میں بھرتی ہونے والے اِن اساتذہ کرام کو ”انڈکشن ٹریننگ“ فراہم کی جا رہی ہے۔ گزشتہ ماہ میں نے وزیراعلیٰ ہاؤس میں ان تربیتوں میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو اعزازی اسناد سے نوازہ گیا اور اِس موقع پر منعقدہ تقریب میں وزیر اعلیٰ‘ وزیر تعلیم اور سیکرٹری تعلیم شریک ہوئے۔ مقررین نے کہا کہ ”بھرتیوں کا عمل شفاف اور اہلیت پر مبنی ہے“ اور جب یہ بات کہی گئی تو تقریب کے شریک اساتذہ نے تالیاں بجا کر تصدیق کی۔ سندھ کے بہت سے نامور سکولوں اِس بات کی شکایت کر رہے ہیں کہ اُن کے اچھے اساتذہ سرکاری سکولوں میں بھرتی ہو رہے ہیں۔ جس سے اُمید ہے کہ سرکاری اداروں میں تعلیم کا نظام بہتر ہوگا کیونکہ اِس مرتبہ اساتذہ ذہین پرجوش اور اہل دکھائی دے رہے ہیں‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے نئے اساتذہ کی بھرتی میں معقولیت سے کام کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی سیاسی حکومت میں سرکاری ملازمین کی بھرتی کا عمل سو فیصد مثالی نہیں ہوسکتا لیکن معقولیت کے قریب ضرور ہو سکتا ہے اگرچہ ہم منفی اقدامات کے لئے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن جب حکومت کچھ اچھا کرتی ہے تو ہمیں کھلے دل سے اس اقدام کی تعریف بھی کرنی چاہئے۔ بہت اچھا کیا کہ سندھ حکومت نے ایسا کیا ہے اور اُمید ہے کہ وہ تعلیم کی طرح دیگر شعبوں میں بھی بھرتیاں اہلیت کی بنیاد پر کرے گی۔ اساتذہ کی بھرتی مجموعی اساتذہ کے انتظام کا صرف ایک حصہ ہے۔ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی پروفیسر لنڈا ڈارلنگ ہیمنڈ کہتی ہیں کہ ”اس پورے نظام میں اساتذہ کی تیاری‘ بھرتی اور اُن کی کارکردگی کو معیاری رکھنا شامل ہوتا ہے۔“ یہ بات تشویشناک ہے کہ حکومت کے پاس بھرتی کے بعد نئے بھرتی ہونے والے اساتذہ کی بڑی تعداد کے مؤثر استعمال اور مسلسل ترقی کے لئے کوئی وسیع منصوبہ نہیں۔ سندھ ایجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کے اعداد و شمار کی بنیاد پر ساٹھ ہزار اساتذہ سندھ کے سرکاری سکولوں میں بھرتی کئے گئے ہیں جو تدریسی افرادی قوت کا تقریباً ایک چوتھائی ہیں۔ اتنے کم وقت میں کسی بھی ادارے کی افرادی قوت میں یہ ایک بہت بڑی تبدیلی اور اضافہ ہے۔ حکومت ان اساتذہ کے ذریعے بند سکولوں کو دوبارہ کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن اس کے علاوہ ان اساتذہ کی مزید ترقی اور انہیں صوبے کے مایوس کن تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لئے استعمال کرنے کا کوئی منصوبہ زیرغور نہیں ہے۔ اساتذہ کو مستقل پیشہ ورانہ ترقی کی ضرورت رہتی ہے۔ تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ نئی افرادی قوت‘ جسے اہلیت پر مبنی سمجھا جاتا ہے‘ بہت جلد پہلے سے موجودہ اساتذہ کی طرح سست روی کا شکار ہو سکتی ہے۔ فیصلہ سازوں سے درخواست ہے کہ وہ اس بارے میں سوچیں کہ ہم ان اساتذہ کو خراب نظام کے بُرے پہلوؤں سے کیسے بچا سکتے ہیں اور اِن کی صلاحیتوں کو کس طرح نکھار کر استعمال کرسکتے ہیں جس کی قوم کو بھی توقع ہے۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے یہ کام جلد اَز جلد کیا جانا چاہئے۔ یہ ممکن ہے کہ نئے اساتذہ کسی سکول میں اکیلا مقرر نہ کیا جائے کیونکہ ایسی صورت میں اکیلا استاد جلد ہی مایوس ہو سکتا ہے اور امکان ہے کہ وہ وہاں کے پرانے اساتذہ کی بے حسی کو دیکھ کر اپنے ابتدائی جوش و خروش کو چھوڑ دے اور مؤخر الذکر کے منفی طریقوں کو اپنا لے۔سرکاری سکولوں کے اساتذہ کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لئے محکمہ تعلیم کے لئے کچھ تجاویز یہ ہیں۔ اساتذہ کو ایک ’پریکٹس کمیونٹی‘ کے طور پر تیار کریں۔ پروفیسر ایٹین وینگر کی طرف سے پریکٹس کمیونٹی کا خیال تجویز کرتا ہے کہ اساتذہ کو ایک پیشہ ور برادری کا احساس دیا جانا چاہئے تاکہ وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کریں۔ چیلنجوں کا مل کر مقابلہ کریں اور مسلسل سیکھنے کی کوشش کریں۔ ان میں سے بہت سے اساتذہ پہلے ہی آن لائن پلیٹ فارمز جیسے واٹس ایپ‘ فیس بک‘ انسٹاگرام وغیرہ کے رکن ہیں۔ اِن پلیٹ فارمز کو مسلسل پیشہ ورانہ ترقی کے لئے فعال طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انہیں پاکستان ٹیچرز ایسوسی ایشن نیٹ ورک جیسی پروفیشنل لرننگ کمیونٹیز میں شامل ہونے کی ترغیب دی جانی چاہئے تاکہ وہ ترقی کر سکیں۔ حکومت کو اساتذہ کی مسلسل ترقی کے لئے باقاعدگی سے پیشہ ورانہ ترقی کے دن رکھنے چاہئیں۔ برطانیہ میں‘ ہر ٹرم بریک کے بعد‘ اساتذہ کے لئے سکول دو سے تین دن پہلے کھلتے ہیں‘ جو پیشہ ورانہ ترقی کی تربیت میں شرکت کرتے ہیں اور اگلی مدت کے لئے تیاری کرتے ہیں۔ سندھ ٹیچر ایجوکیشن ڈوویلپمنٹ اتھارٹی نے ایک مسلسل پیشہ ورانہ ترقیاتی فریم ورک تیار کیا ہے جس پر دوبارہ سرکاری مالی اعانت کے ساتھ عمل درآمد کیا جانا چاہئے۔ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے اساتذہ کو انعام دیا جانا چاہئے۔ نئے اساتذہ کو تفویض کردہ کلاسوں کی بیس لائن جائزہ لیا جانا چاہئے۔ اگر طلبہ بہتری دکھاتے ہیں تو اساتذہ کو انعام دیا جانا چاہئے۔ تعریفی خط‘ وزارت ِتعلیم کی ویب سائٹ پر ایک تصویر اور مالی مراعات سے ان کے حوصلے بلند ہوں گے۔ جو لوگ بہتر کام نہیں کر سکے ان کی بھی حمایت و سرپرستی کی جانی چاہئے اگرچہ بہت سے پرانے اساتذہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں نظام کا ’جوہر‘ سمجھا جاتا ہے۔ ایسے سینئر اساتذہ کیلئے یہ ممکن بنایا جانا چاہئے کہ وہ نئے اساتذہ کے ساتھ سرپرست کے طور پر کام کریں۔ میرٹ کی بنیاد پر بھرتیوں کے ذریعے ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے ایک مشکل پہلا قدم اٹھایا ہے۔ انہیں ان اساتذہ کی نشوونما کے لئے مزید اقدامات کرنے اور ان کی کوشش کا مکمل فائدہ دیکھنے کیلئے مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ان نئے اساتذہ کی پرورش نہیں کی گئی تو حکومت ایک بہت بڑا فائدہ کھو دے گی اور مزید دو سے تین دہائیوں تک بحال نہیں ہو سکے گی۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ساجد علی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)