چین: نئی دنیا کی تشکیل

ایک ایسا ملک جہاں کے رہنے والے ایک دوسرے کے ساتھ قومی ترقی میں شراکت داری کرتے ہوں درحقیقت تاریخ عالم کا وہ ضروری اصول ہے جو متنوع تہذیبوں کو ہم آہنگی کے ساتھ مل جل کر رہنے کے قابل بناتا ہے اور اس کے حصول کے لئے محرک اور عملی روڈ میپ پیش کئے جاتے ہیں۔ گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو‘ سلامتی اور ترقی سے متعلق پچھلے تین بڑے اقدامات ایک انتہائی تعمیری‘ عملی اور پائیدار اقدام کی نمائندگی کرتے ہیں۔ دنیا کو سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے۔ جن کی حالیہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی جیسا کہ کورونا وبا کے پھیلنے کا خوف‘ ہاٹ سپاٹس کو عالمی جنگ میں تبدیل کرنے کا بڑھتا ہوا خطرہ اور آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات‘ یہ سب عالمی ترقی اور بین الاقوامی سلامتی کو سنگین طور پر خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اس طرح کے ممکنہ چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لئے چین کے صدر شی جن پنگ نے متعدد اقدامات کئے ہیں جن میں گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو (جی ڈی آئی)‘ گلوبل سیکورٹی انیشی ایٹو کے ساتھ انسانیت کے مشترکہ مستقبل کا نظریہ بھی رکھتے ہیں اگرچہ یہ اقدامات عالمی طاقت کے تانے بانے کے تین مختلف پہلوؤں کو حل کرتے نظر آتے ہیں لیکن ان اقدامات کا گہرا جائزہ لینے سے پتہ چلے گا کہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک (مربوط) ہیں اور ترقی‘ امن و ترقی کو مستقل موضوع کے طور پر آگے بڑھا رہے ہیں۔ انسانیت کے لئے مشترکہ مستقبل کا تصور صدر ژی جن پنگ کا انقلابی نظریہ ہے۔ گلوبل سیکورٹی انیشی ایٹو (جی ایس آئی) اور گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو (جی ڈی آئی) ایک دوسرے کو مضبوط بنانے اور تکمیل کرنے کے لئے ہیں‘ جو ہم آہنگی اور باہمی ربط کی اہمیت کی علامت بھی ہیں۔ یہ تین اقدامات عالمی عوامی مفاد کے طور پر دنیا میں چین کے کردار کی نمائندگی اور دور حاضر کے چیلنجوں کا حل پیش کرتے ہیں اور سلامتی و ترقی کے شعبوں میں مشترکہ اہداف اور مفادات کے ساتھ ایک عالمی برادری بنانے کے ویژن کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔آج کی دنیا میں ترقی ’سلامتی‘ پر منحصر ہے اور ترقی سے سلامتی کو تقویت ملتی ہے۔ صدر ژی امن اور ہم آہنگی کی تلاش میں رہتے ہیں اور اِن تینوں اقدامات کا آغاز چین کی اخلاقیات سے وابستگی اور نئی دنیا کی تشکیل میں اہم کردار کی عکاسی کر رہے ہیں۔ عوامی جمہوریہ چین فعال طور پر دیگر ممالک کے ساتھ دوستی اور تعاون کے مواقع تلاش کر رہا ہے اور جی ڈی آئی اور جی ایس آئی کے نفاذ کے لئے بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے بھی تیار ہے۔ فروری میں جاری ہونے والے جی ایس آئی کانسیپٹ پیپر میں بنیادی اصولوں اور تصورات کے ساتھ ساتھ تعاون کے بیس شعبوں اور تعاون کے پانچ پلیٹ فارمز یا میکانزم کا خاکہ پیش کیا گیا۔ یہ دستاویز ایکشن پر مبنی رہنما دستاویز (گائیڈ) کے جیسی ہے اور اپنے مجوزہ جی ایس آئی کو عملی جامہ پہنانے میں چین کے لئے ایک اہم قدم کی نمائندگی کرتی ہے۔ کانسیپٹ پیپر جاری کرکے چین نے عالمی سلامتی کے تحفظ اور عالمی امن کو فروغ دینے کی ذمہ داری قبول کرنے کے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے۔ سرد جنگ کے نئے دور کی کشیدگی کے موجودہ دور کی روشنی میں‘ اس تصوراتی مقالے کا اجرأ چین کی جانب سے عالمی برادری کے لئے اہم کردار ہے‘ جس میں ابھرتے ہوئے سلامتی کے چیلنجوں سے نمٹنے اور انسانیت کی خوشحالی کے لئے بہتر ذرائع کی نئی تلاش کے لئے چینی حل پیش کیا گیا ہے۔ جی ایس آئی کانسیپٹ پیپر میں صدر ژی جن پنگ کی جانب سے گزشتہ سال اپریل میں بواؤ فورم میں اس اقدام کے آغاز کے دوران کئے گئے چھ بنیادی وعدوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان وعدوں میں شی جن پنگ کے ”مشترکہ‘ جامع‘ تعاون پر مبنی اور پائیدار سلامتی کے تصور“ کو فروغ دینا شامل ہے۔ نئے تصوراتی مقالے کے اگلے حصے امریکہ کے بعد کے بین الاقوامی سلامتی ڈھانچے کے بارے میں چین کے ویژن کے لئے ایک وسیع فریم ورک کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ تعاون کی ترجیحات کے سیکشن میں اس بات کا خاکہ پیش موجود ہے کہ چین کس طرح بین الاقوامی سلامتی کے چیلنجوں سے نمٹنے اور دنیا بھر میں بکھرے ’فلیش پوائنٹس‘ سمیت مختلف خطوں میں استحکام کو فروغ دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسی طرح ’جی ڈی آئی‘ چین کی اپنے انداز اور شرائط کے مطابق ترقیاتی تعاون میں عالمی رہنما بننے کی خواہشات کی نشاندہی کرتا ہے۔ غربت میں کمی‘ صحت کی دیکھ بھال‘ ماحولیاتی استحکام اور ڈیجیٹل تبدیلی پر اس کا زور جدت طرازی اور پائیداری کی طرف عالمی رفتار کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے‘ جس میں متعدد ممالک میں وبائی امراض کے ردعمل اور معاشی بحالی کے اہم مطالبات کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ جی ڈی آئی صرف ترقیاتی اقدامات کا مجموعہ نہیں جو چین کی طرف سے گلوبل ساؤتھ میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو ’سپانسر‘ کرنے کے لئے شروع کیا گیا۔ یہ نقطہ نظر اس یقین پر مرکوز ہے کہ ’ترقی‘ جسے چین نے ٹھوس الفاظ میں معاشی ترقی کے طور پر بیان کیا ہے‘ غربت سے لے کر تنازعات اور عدم استحکام تک تمام مسائل کا حتمی حل ہے۔ چین کا گزشتہ آٹھ سو سال میں چالیس ملین افراد کو غربت سے نکالنے اور دوہزاراکیس میں مکمل طور پر غربت کا خاتمہ کرنے کا کامیاب ماڈل اس کی انتہائی کامیاب ترقیاتی حکمت عملی کی تصدیق (منہ بولتا ثبوت) ہے۔ اس کامیابی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چینی حکومت نے اپنی ترقیاتی تعاون کی حکمت عملی کے اہم پہلو کے طور پر غربت میں کمی کو ترجیح دی‘ جس کا مقصد ’غربت سے پاک مشترکہ مستقبل کی عالمی برادری‘ تشکیل دینا ہے۔ اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ بیجنگ چین کے گورننس اصولوں کو کس طرح فروغ دے رہا ہے اُور یہ کس طرح دیگر ممالک کو وسیع البنیاد اتحادوں میں جوڑتے ہوئے موجودہ عالمی طاقت کے ڈھانچے میں امریکہ کے اثر و رسوخ اور قیادت کو کمزور کر رہا ہے جس کے لئے سفارتی ہتھیار کو مؤثر طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ صدر ژی جن پنگ کا مستقبل کے لئے ویژن‘ جو کہ عالمی افہام و تفہیم اور مشترکہ ادارے کی تعمیر پر زور دیتا ہے‘ مسابقت کے ذریعے مستقبل کی تعمیر کے موجودہ امریکی تصور سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عمران خالد۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)