عالمی دن: جنگلات اور صحت 

پائیدار ترقی میں جنگلات کے کردار کو اُجاگر کرنے کے لئے ہر سال ”جنگلات کا عالمی دن“ منایا جاتا ہے۔ اِس دن کے منانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ جنگلات کو لاحق خطرات کم کئے جائیں اور انہیں صحت مند و محفوظ ماحول فراہم کیا جائے۔ اقوام متحدہ کے زیرانتظام اِس عالمی دن کے لئے رواں برس کا موضوع ”جنگلات اور صحت“ ہے جس کا مقصد صحت مند ماحول فراہم کرنے میں جنگلات کی اہمیت اُجاگر کرنا اور جنگلات کا رقبہ کم ہونے کی وجہ سے کئی مہلک بیماریاں پھیلنے یا مزید بیماریوں کے پھیلنے کے خطرات سے دنیا کو آگاہ کرنا ہے تاکہ جنگلات کی حفاظت اور ترقی کے لئے عالمی سطح پر مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دیا جا سکے۔ ’ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ‘ کے مطابق ”ایمیزون خطے میں‘ پچھلے سترہ برس کے دوران قریب پچاس فیصد جنگلات کا رقبہ کم ہوا ہے۔جنگلات کے انسانی صحت پر اثرات کا آغاز ’صاف ہوا‘ کی فراہمی سے ہوتا ہے جبکہ جنگلات سے جڑی بوٹیاں حاصل ہوتی ہں جن سے ناقابل علاج بیماریوں کا علاج دریافت کیا جاتا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ درخت کرہئ ارض کے ماحول اور حیاتیاتی تنوع کا اہم جز ہیں یہ زمین کے لئے پھیپھڑوں کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ہوا کو صاف کرتے ہیں اور فضا سے موجود کاربن کے اخراج کو جذب کرتے ہیں۔ موسم سرما کے دوران ہوا میں کاربن کی زیادہ مقدار سموگ کی وجہ بنتی ہے جس کی وجہ سے جلدی امراض‘ آنکھوں اور سانس کی بھی کئی ایک پیچیدہ بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ سال دوہزارپندرہ کے دوران آئی گرمی کی لہر (ہیٹ ویو) نے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بھارت کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا اور اِس گرمی کی لہر سے سینکڑوں کی تعداد میں اموات ہوئیں۔ ذہن نشین رہے کہ ’ہیٹ ویو‘ کی وجہ سے انسان اور ہم زمین جانداروں کے جسم میں پانی کی کمی ہو جاتی ہے اِنہیں دل کی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں جو موت کاباعث بنتی ہیں۔ جنگلات ہوا سے کاربن کو نکالنے (فلٹر) کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے آب و ہوا کی تبدیلی سے لڑنے میں ہماری مدد بھی کرتے ہیں‘ جس سے کم اوسط عالمی درجہ حرارت کو برقرار رکھنے اور آب و ہوا کی تبدیلی کا مقابلہ کرنے جیسی کوششوں میں مدد ملتی ہے۔ پاکستان کی معیشت و معاشرت کو دیکھا جائے تو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والی آفات کے باعث ’صحت کے شعبے کو درپیش چیلنجز‘ میں اضافہ ہوا ہے۔ جنگلات کم ہونے کی وجہ سے سیلاب زیادہ تباہی کا باعث بنتے ہیں جیسا کہ سال دوہزاربائیس کے (حالیہ) سیلاب میں دیکھا گیا کہ کس طرح پانی اپنے ساتھ دہائیوں کی ترقی بہا لے گیا اور پھر سیلابی ریلا گزرنے کے بعد متاثرہ علاقوں میں ڈائریا‘ ملیریا اور ڈینگی سمیت کئی بیماریاں پھیل گئیں اور صحت کے بہت سے گھمبیر مسائل پیدا ہوئے‘ جنہیں حل کرنے کے لئے اربوں روپے خرچ کرنے باوجود بھی صورتحال سنبھل نہیں پا رہی ہے۔ پاکستان کے حالیہ سیلاب کے بارے میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق ”جنوری دوہزارتئیس کے وسط تک‘ تقریبا چالیس لاکھ (چار ملین) بچے آلودہ اور جمے ہوئے سیلابی پانی کے قریب زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں جن کی وجہ سے اُن کی جسمانی صحت‘ بقا اور خوشحالی خطرے میں ہے۔آج کی دنیا کو لاحق ایک اور بڑا خطرہ ’تیزابی بارش‘ کا ہے۔ جب فضا میں کاربن کی مقدار بڑھتی ہے اور یہ کاربن سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن آکسائیڈ کے ساتھ ملتا ہے تو اِس کے نتیجے میں ہونے والی بارش کو تیزابی بارش کہا جاتا ہے جو انسانوں‘ جانداروں اور فصلوں کے لئے خطرناک ہوتی ہے۔ مذکورہ بارش کا پانی پینے اور اِسے دیگر استعمال میں لانا خطرناک ہوتا ہے لیکن لوگوں کو شعور نہیں ہوتا جبکہ تیزابی بارش پانی کے ذخائر کو بھی آلودہ کرنے جیسا نقصان کرتی ہے۔ جنگلات غذائیت سے بھرپور غذا کی فراہمی کا اہم ذریعہ ہیں۔ جن ممالک میں جنگلات کا رقبہ کم ہے وہاں غذائی عدم تحفظ اور غذائی قلت جیسے مسائل (چیلنجز) پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے ممالک کو اہم غذائی اشیا درآمد کرنی پڑتی ہے جو ظاہر ہے کہ مہنگی ہوتی ہیں اور ایسا کرنا کم آمدنی والے ممالک (ترقی پذیر دنیا) کے لئے ممکن نہیں ہوتی۔ جب غذأ کا معیار خراب ہو تو اِسے استعمال کرنے والوں کی جسمانی طاقت اور بیماریوں کے خلاف قوت ِمدافعت کم ہوتی ہے۔ دل کی بیماریاں پھیلتی ہیں اور جنگلات کے رقبے میں کمی کی وجہ سے جنگلی حیات بھی خطرات سے دوچار ہو جاتی ہے۔”فاریسٹ فار ہیومن ہیلتھ اینڈ ویل بینگ“ نامی غیرسرکاری تنظیم کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ”براعظم ایشیا اور براعظم افریقہ کے 22 ممالک میں کئے گئے ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ دیہی علاقوں میں رہنے والے مقامی لوگ جنگلات سے حاصل ہونے والی خوراک کی بڑی مقدار پر انحصار کر رہے ہیں۔ وسطی افریقہ میں‘ جنگلی جانوروں کے گوشت اور ماہی گیری کی مصنوعات جنگلات سے متصل لوگوں کے لئے کل پروٹین کی کھپت کا پچاسی فیصد ہیں تاہم جنگلات کی کمی کی وجہ سے قیمتی جانور معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں اور اِس بارے میں خاطرخواہ توجہ نہ دی گئی تو قدرت کے بنائے ہوئے ماحولیاتی نظام (تنوع) مزید بگڑ سکتا ہے‘ جس سے صحت و خوراک اور فضائی آلودگی جیسے مسائل پیدا ہوں گے۔ اسی طرح جنگلات زندگی بچانے والی ادویات تیار کرنے کے لئے اہم اجزأ فراہم کرتے ہیں۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق ”ادویہ سازی اور اِس شعبے میں تحقیق کرنے والے پچاس ہزار سے زیادہ مختلف اقسام سے استفادہ کر رہے ہیں لہٰذا وہ جڑی بوٹیاں جو ہمیں جنگلات میں پھیلی نظر آتی ہیں بے مقصد نہیں بلکہ یہ انسانوں کو لاحق ناقابل علاج امراض کا حل ہیں اور یہ انسانوں کی زندگیاں بچا بھی رہی ہیں اور مستقبل میں آنے والی خطرناک بیماریوں سے نمٹنے کے لئے اُمید کی کرن ہیں۔جنگلات اچھی ذہنی صحت کے لئے بھی ضروری اور مثالی ذہنی صحت کا اہم ذریعہ ہیں کیونکہ یہ لوگوں میں ذہنی و نفسیاتی تناؤ کو کم کرتے ہیں۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) کے مطابق ”بڑے پیمانے پر تجارتی زراعت (بنیادی طور پر مویشی پالنے اور سویا بین اور آئل پام کی کاشت) کی وجہ سے جنگلات کا رقبہ چالیس فیصد کم ہوا ہے اور اِس رقبے کی کمی کی وجہ سے زرعی پیداوار میں 33 فیصد کمی آئی ہے۔“ یہ انتہائی تشویشناک اعدادوشمار ہیں۔ جنگلات میں رہائشی کالونیاں اور آرام گاہیں تعمیر کر کے انسان قدرت کے ماحول میں مداخلت کر رہے ہیں اور اِس مداخلت کا سلسلہ زمین اور اِس کے جملہ جانداروں کی بقا و مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے رکنا چاہئے۔ جنگلات کے بغیر‘ کرہئ ارض کی بقا اور اِس پر آباد انسانوں کی صحت و تحفظ ممکن نہیں اور جنگلات کھونے کی صورت بہت سے فوائد بھی ہاتھ سے جاتے رہیں گے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ظل ہما۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)