سبسڈی: درست و غلط اقدامات

پنجاب اور خیبر پختونخوا کی نگران حکومتوں نے حال ہی میں مفت آٹے کی فراہمی شروع کی ہے اِس مقصد کے لئے پنجاب بھر میں ڈسٹری بیوشن پوائنٹس کے ذریعے ”53 ارب روپے“ اور خیبر پختونخوا میں ”19۔8 ارب روپے“ مالیت کا آٹا مفت فراہم کیا جائے گا۔ یہ اقدام‘ جس کا مقصد رمضان المبارک کے دوران غیر معمولی غذائی افراط زر (مہنگائی) سے متاثرہ غریب خاندانوں کو ریلیف فراہم کرنا ہے لیکن اِس کوشش میں کچھ خامیاں بھی ہیں جن کی وجہ یہ بھی ہے کہ مفت آٹے کی فراہمی کا فیصلہ عجلت میں کیا گیا اور یہی وجہ رہی ہے کہ اِس فیصلے میں کن پہلوؤں پر غور ہوا اِس سے متعلق تفصیلات صیغہ راز میں رکھی گئیں۔ درحقیقت ایک اچھی طرح سے تیار کردہ ’ٹارگٹیڈ سبسڈی میکانزم‘ وقت کی ضرورت ہے کیونکہ ملک میں غلط ہدف والی سبسڈیز دی جاتی رہی ہیں جس سے غیرمستحق افراد زیادہ بڑی تعداد میں فائدہ اُٹھاتے رہے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ حیران کن ہے کہ اگر حکومت غریب طبقات کو سبسڈی دینا چاہتی تھی تو اِس کیلئے ’احساس راشن رعایت پروگرام‘ کا بنیادی ڈھانچہ اور تکنیکی مہارت موجود تھی جس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے ایک بالکل نیا اور متوازی پروگرام شروع کر دیا گیا ہے ’احساس راشن رعایت پروگرام‘ وفاقی حکومت نے جنوری 2022ء میں شروع کیا تھا یہ اپنی نوعیت کا اور قومی سطح پر شروع کیا گیا پہلا ڈیجیٹلائزڈ سبسڈی پروگرام تھا جس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ سبسڈی کے عمل کو شفاف بنانے کیلئے ’ڈیجیٹل انفراسٹرکچر‘ تیار کیا جائے اِسی حکمت عملی کے تحت 3700 یوٹیلیٹی سٹورز نیٹ ورک کو ’ڈیجیٹلائزڈ‘ کیا گیا جس کا حتمی مقصد پہلے سے مالی طور پر غیر موثر اور غیر ہدف شدہ سبسڈیز کو مرحلہ وار ختم کرنا تھا۔ جون 2022ء میں جب وفاقی حکومت کی جانب سے احساس راشن رعایت پروگرام کو اچانک ختم کر دیا گیا تو اس کی جگہ دوسرا نظام وضع کرنے کیلئے تیزی سے اقدامات کئے گئے اور اِسے پنجاب میں صوبائی پروگرام کے طور پر اپنایا گیا‘ جس میں کم آمدنی والے خاندانوں کو احساس سے چلنے والے اسٹورز پر رعایتی قیمت پر گھی‘ خوردنی تیل‘ آٹا اور دالیں حاصل کرنے میں مدد کیلئے 100ارب روپے مختص کئے گئے‘ پہلی سہ ماہی کے دوران‘ یہ پروگرام 75۔5 ملین سے زیادہ گھرانوں تک پہنچ گیا جبکہ مزید پچاس لاکھ خاندانوں کو اِس میں شامل ہونا ہے لیکن تاحال فنڈز کا اجرأ نہیں ہوا ہے‘کسی بھی کامیاب ’ٹارگٹیڈ سبسڈی پروگرام‘ کیلئے میکانزم وضع کرنا پڑتا ہے اور ایسے کسی میکانزم کے 3 اہم ستون ہوتے ہیں۔ یہ تین ستون عوام دوست یعنی حسب ضرورت‘ شفاف اور مؤثر ہونے چا ہئیں‘ ضلعی انتظامیہ نے ماہئ رمضان المبارک کے دوران زیادہ تر آٹا تقسیم کرنے کیلئے حکومت کے زیرانتظام فکسڈ کیمپ اور ٹرکنگ پوائنٹس قائم کئے ہیں۔ اِن ڈسٹری بیوشن پوائنٹس پر بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے سبسڈی کا عمل خطرناک ہو گیا ہے اور اِس کی وجہ سے اموات بھی ہو رہی ہیں‘ سبسڈی کی فراہمی میں شفافیت نہایت ضروری ہے اور اِس مقصد کیلئے بے ضابطگیوں کو روکنا بھی یکساں اہم ہے جس کیلئے سبسڈی پروگرام کی کڑی نگرانی کی جانی چاہئے ماضی میں سبسڈی کی فراہمی کے لئے صارف کی دو طرفہ تصدیق کی حکمت عملی وضع کی گئی تھی اور سبسڈی کی فراہمی نہایت ہی باعزت و خاموشی کے ساتھ کی جاتی تھی‘ توجہ طلب ہے کہ اربوں روپے کی سبسڈی فراہم کی جا رہی ہے لیکن اِس سبسڈی کی فراہمی میں دھوکہ دہی کی روک تھام پر زیادہ توجہ نہیں دی جا رہی‘رمضان المبارک عطا پروگرام‘ نامی حکمت عملی کے قیام میں بھی خاطرخواہ شفافیت و فعالیت پر بہت کم توجہ دی جا رہی ہے‘ اس کے برعکس‘ اگر حکومت ماضی میں وضع کردہ سبسڈی کے طریقے اور وسائل کا استعمال کرتی تو کسی اضافی لاگت کے بغیر صرف اور صرف مستحق افراد کو سبسڈی فراہم کی جا سکتی تھی‘ حکومت چاہتی ہے کہ کم آمدنی رکھنے والے طبقات بالخصوص غریبوں کو ایندھن کی مد میں بھی سبسڈی فراہم کی جائے مجھے خدشہ ہے کہ وفاقی حکومت بھی وہی غلطی کرے گی اور اِس مقصد کیلئے فیول اسٹیشنوں کا ملک گیر نیٹ ورک پھیلانا غیر دانشمندانہ اقدام ہوگا اگر اِسی نظام کو نظام پہلے سے موجود پیٹرول پمپوں پر ’پوائنٹس آف سیل (ُۃص)‘ کے ساتھ منسلک و ضم کر دیا جائے تو صرف اہل و مستحقین افراد کو ایندھن (پیٹرولیم مصنوعات) پر سبسڈی فراہم کی جاسکتی ہے‘ ایسا نہیں ہونا چاہئے ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت ماضی کی حکمت عملیوں کا جائزہ لے اُن کے اچھے پہلوؤں کو اپناتے ہوئے سبسڈی فراہم کرنے کے عمل میں شفافیت کے حصول پر توجہ دی جائے۔ (مضمون نگار سینیٹر اورسابق معاون خصوصی برائے انسداد غربت و سماجی تحفظ ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر ثانیہ نشتر۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)