دنیا کو امن کی ضرورت ہے۔ بیسویں صدی میں لڑی جانے والی دو عالمی اِس بات کا مظہر ہیں کہ جب تک جنگوں سے اجتناب نہیں ہوگا اُس وقت تک پائیدار امن کے قیام جیسا بلند و بالا مقصد بھی حاصل نہیں کیا جا سکے گا۔ حالانکہ اقوام متحدہ کو اِس خاص مقصد کے حاصل کرنے کے لئے تشکیل دیا گیا ہے۔ وقت ہے کہ دنیا جنگوں کے بارے میں اپنے مؤقف پر نظر ثانی کرے اور بدیر سہی لیکن اِس بات کا احساس کیا جائے کہ اتحاد و اتفاق ہی دنیا میں آگے بڑھنے کا راستہ ہو سکتا ہے اور ہمیں انسانیت کو غربت‘ بھوک اور فاقہ کشی سے بچانے کے لئے امن کو ایک موقع دینا چاہئے۔ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر سے لے کر یوکرین تک دنیا بھر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں عام ہیں اور یہ مثالیں کسی بھی طرح انسانیت کے شایان شان نہیں ہیں۔دنیا پہلے ہی سرد جنگ کا صدمہ جھیل چکی ہے۔ پچھلی صدی میں جب امریکہ اور مغربی دنیا سرمایہ دارانہ نظام پر عمل پیرا تھے‘ سابق سوویت یونین اور اِس کے اُن اتحادیوں کے خلاف جنگ جاری رہی جنہوں نے ’سوشلسٹ معاشی نظام‘ اپنا رکھا تھا۔ بغور دیکھا جائے تو دنیا میں جنگیں ایک دوسرے کے معاشی نظام کا مقابلہ کرنے اور اپنے اپنے معاشی نظام کے تحفظ کے لئے لڑی جا رہی ہیں اور اِس صورتحال میں اقوام متحدہ اپنا خاطرخواہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہے جیسا کہ نیٹو کے معاملے میں دیکھا گیا کہ اقوام متحدہ سوائے مذمت کے کچھ نہیں کر سکی۔ اِسی طرح موجودہ صدی کے آغاز پر جب عراق‘ شام اور لیبیا پر حملے ہوئے جس سے عالمی امن کو خطرات لاحق ہوئے اور مذکورہ ممالک میں صدیوں میں حاصل کی گئی تعمیر و ترقی ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئی تو خود کو مہذب کہنے والی دنیا خاموش رہی۔ افغانستان کی جنگ ایسی ہی بے بسی کی ایک اور مثال ثابت ہوئی۔ نائن الیون کے واقعات کے بعد نیٹو افواج نے اقوام متحدہ کی آڑ میں حملہ کیا۔ یہ جنگ برسوں تک جاری رہی اور آج بھی افغانستان اِس جنگ کے اثرات سے نہیں نکل سکا ہے جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ مہاجر اور لاکھوں ہی کی تعداد میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اِن تمام واقعات کے نتیجے میں انسانی جانوں اور مصائب کی قیمت پر ’عالمی امن‘ قائم نہیں ہو سکتا۔ اگر اقوام متحدہ اپنا خاطرخواہ کردار ادا کرے اور تمام سٹیک ہولڈرز کو قیام امن کے لئے بات چیت کے ذریعے اتفاق رائے تک پہنچائے تو یہ بہتر انداز میں زیادہ فعال کردار ہوگا اور اگر ایسا ہوا تو شاید نہ صرف جنگ سے پیدا ہونے والے موجودہ مسائل سے نمٹا جا سکے بلکہ مزید جنگوں کو روکنا بھی ممکن ہو جائے لیکن افسوس کہ اِس آپشن پر کبھی غور نہیں کیا گیا۔ اب جبکہ یوکرین کی جنگ نے پوری دنیا میں ہلچل پیدا کر رکھی ہے اور اِس جنگ کی وجہ سے خوراک و ایندھن کی قلت‘ قیمتوں میں اضافہ اور توانائی بحران جیسے بے شمار مسائل نے جنم لے لیا ہے جس سے دنیا کے غریب ممالک زیادہ متاثر ہیں تو اِسے جنگ کو بھی ختم کرنے کی بجائے عالمی طاقتیں اور اِن کے اتحادی ممالک اِس پر تیل ڈالنے کا کام کر رہے ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ دنیا کو جنگوں سے اِس لئے روکا جائے تاکہ بھوک‘ افراط زر اور قیمتوں میں اضافے کو روکا جا سکے۔تائیوان کا معاملہ چین اور امریکہ کے درمیان تلخیوں کا باعث بنا ہوا ہے اور یہ تلخیاں کسی بحران کی صورت ہر دن بڑھ رہی ہیں۔ امریکہ چین کے خلاف پہلے ہی اقتصادی جنگ شروع کئے ہوئے ہے‘ جو دنیا میں ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ثابت ہوسکتا ہے اور اگر ایک اور سرد جنگ شروع ہوئی تو یہ عالمی امن و سلامتی کے لئے نقصان دہ ہوگی اور ہر قیمت پر اِس سے گریز کیا جانا چاہئے۔ دنیا معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے۔ افراط زر اور اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتیں عام لوگوں کی زندگیوں کو جھنجھوڑ رہی ہیں۔ تجارت اور کاروبار کو بچانے کے لئے اجناس کی نقل و حمل کو زیادہ مربوط طریقے سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا بالخصوص پی فائیو‘ جی فائیو اور جی سیون ممالک کو اِس حوالے سے اپنی اپنی حکمت عملیوں اور زوایہئ نگاہ پر نظر ثانی کرنی چاہئے تاکہ آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لئے سائنس و ٹیکنالوجی سمیت تمام شعبوں میں تیز رفتار پیش رفت (تحقیق و ترقی) کو یقینی بنایا جا سکے۔ متوقع سرد جنگ کے دوران نہ صرف امن اور سلامتی متاثر ہوگی بلکہ اس طرح کے تناؤ کا ٹیکنالوجی کی ترقی جیسا کہ تیز رفتار انٹرنیٹ‘ نئی اوپن اے آئی ایپس وغیرہ پر بھی بہت بڑا اور بُرا اثر پڑے گا‘ جو عالمی تجارت میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سرپرستی میں عظیم الشان ”عالمی مکالمے“ کی ضرورت ہے تاکہ اقوام عالم میں اتحاد پیدا کیا جا سکے اور دنیا کو امن و سلامتی کی علامت بنایا جا سکے۔ یہ تصور سے بالاتر ہے کہ دنیا بکھری ہوئی ہے اور انسانوں کے وسیع تر مفاد کے لئے متحد نہیں ہوسکتی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے موسمیاتی تبدیلیوں اور چیلنجوں کا حوالہ دیتے ہوئے بجا طور پر کہا ہے کہ ”انسانیت برف کی پتلی تہہ پر کھڑی ہے اور اِس سے بھی زیادہ خطرے کی بات یہ ہے کہ یہ برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔“ یہی حال دنیا کے اُن لوگوں کا بھی ہے جو عالمی طاقتوں کے ہاتھوں میں جوہری ہتھیاروں کی وجہ سے خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔ روس یوکرین جنگ کے بارے میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کہتی ہیں ”ایک سال بعد بھی عالمی سطح پر خوراک کی قیمتیں بلند ہیں اور بہت سے ممالک اب بھی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔“ دنیا کو وبائی امراض کا بھی سامنا ہے جس کے بارے میں ’بل گیٹس‘ کے بیان کا حوالہ دینا سیاق و سباق سے ہٹ کر نہیں ہوگا جنہوں نے کہا کہ ”ہمیں وبائی امراض سے اسی طرح لڑنا ہوگا جس طرح ہم آگ سے لڑتے ہیں۔“ اِن انتہائی معزز عالمی شخصیات کے بیانات کا حوالہ دینے کا مقصد اِس بات پر زور دینا ہے کہ دنیا کی آٹھ ارب آبادی کو پائیدار امن کے حصول کے لئے زیادہ دور اندیش قیادت اور اِس مقصد کے حصول کے لئے اقوام متحدہ کے کردار کو مضبوط و مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: حسن بیگ۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام