ہائر ایجوکیشن کمیشن: نشیب و فراز

حال ہی میں فریڈ ہیورڈ (پالگریو میکملن) نے اعلیٰ تعلیم پر قابل ذکر کتاب شائع کی ہے جس کا عنوان ہے ”افریقہ اور ایشیا میں ادارہ جاتی ترقی اور اہم تبدیلیوں کا فروغ۔“ اس کتاب کا ایک باب ’پاکستان کے لئے مختص کیا گیا ہے‘ جو ’ٹاپ ڈاؤن ٹرانسفارمیشن 2002ء سے 2008ء کے دوران ہوئی اصلاحات سے متعلق ہے اور یہ وہی دور ہے جب ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے چیئرپرسن کی حیثیت سے فیصلہ سازی راقم الحروف کے اختیار میں تھی۔ تب پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں نمایاں اور مثبت تبدیلیاں آئیں تاہم یہ تسلسل جاری نہیں رکھا گیا۔ ڈاکٹر فریڈ ایم ہیورڈ نے ماہرین تعلیم کی ایک ٹیم کے ہمراہ پاکستان کی جامعات کا دورہ کیا اور ایچ ای سی کی جانب سے وسط مدتی ترقیاتی فریم ورک (ایم ٹی ڈی ایف) کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد کے لئے کئے جانے والے کام کا تنقیدی جائزہ لیا۔ سال 2002ء میں جب راقم الحروف نے ایچ ای سی کا چیئرپرسن کا عہدہ سنبھالا تو اُس وقت صورتحال انتہائی خراب تھی اور زیادہ تر یونیورسٹیاں خستہ حالی کا شکار تھیں۔ سال 2002ء سے  2008ء کے دوران ایچ ای سی کے قیام اور اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے ہماری پالیسیوں کے متعارف ہونے کے بعد سے اِس میں بہتری آئی۔ اس کی وضاحت ڈاکٹر ہیورڈ کے مندرجہ ذیل نتیجے سے ہوتی ہے اُنہوں نے لکھا ہے کہ سال 2002ء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے شروع کی گئیں اصلاحات پروفیسر عطا الرحمن کے اُس کام کا تسلسل تھا جو اُنہوں نے بطور سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر شروع کی تھیں۔ جب انہیں 2002ء میں اُس وقت کے سربراہ مملکت  نے ’ایچ ای سی‘ کا سربراہ مقرر کیا تھا تو انہوں نے فوری طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کو اپ گریڈ اور وسعت دینے پر زور دیا۔ تمام سرکاری اور نجی اعلی تعلیمی اداروں کو ایک دوسرے سے مربوط کرتے
 ہوئے ڈیجیٹل لائبریری قائم کی گئی اور فیکلٹی ریسرچ کی حوصلہ افزائی اور توسیع کے لئے پاکستان ریسرچ نیٹ ورک قائم کیا گیا۔ اُس وقت کی حکومت نے اعلیٰ تعلیم کی بہتری و ترقی کے لئے خاطرخواہ فنڈز فراہم کئے۔ ایچ ای سی ہر سال تقریبا ایک ہزار فیکلٹی کو پی ایچ ڈی کی تربیت کے لئے بیرون ملک بھیجتا ہے۔ ہر ایک اپنی پی ایچ ڈی کے ساتھ واپس آنے پر ایک لاکھ ڈالر تک کی ریسرچ گرانٹ کے لئے درخواست دے سکتا ہے۔ ایچ ای سی نے اس بات کو بھی یقینی بنایا ہے کہ نئے پی ایچ ڈیز کو اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر واپس آنے پر نوکری ملے۔ سائنس پر زور رہے اور لیبارٹریوں کو اپ گریڈ کیا جائے اور ان کے لئے جدید ترین آلات خریدے جائیں۔ راقم الحروف کے دور میں تمام فیکلٹی ممبروں کے لئے بڑی لیبارٹریاں بھی قائم کی گئیں۔ ایچ ای سی نے جن فیکلٹی ممبران کو بیرون ملک بھیجا اُن میں سے واپس ملک آنے والے افراد کی شرح 97.5 فیصد رہی۔ ایچ ای سی کی قیادت کے معیار اور اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے اصلاحات و اقدامات کو سراہتے ہوئے فریڈ ہیورڈ کہتے ہیں کامیابی کے لئے خاص طور پر ایچ ای سی کی شاندار قیادت اور عملے کی کارکردگی اہم رہی۔ سٹریٹجک منصوبے کے نفاذ کے اُس ابتدائی دور میں جو متعدد کامیابیاں حاصل ہوئیں‘ اُن میں فاصلاتی تعلیم کا اضافہ بھی شامل ہے جو بہت مقبول ہوا۔ سرکاری اور نجی اداروں میں داخلوں کی تعداد 1 لاکھ 83 ہزار سے بڑھ کر 2 لاکھ 78 ہزار سے زیادہ ہو گئی اور یوں 72 فیصد کا اضافہ ہوا۔ ڈیجیٹل لائبریری
 نے فیکلٹی ممبران‘ عملے اور طلبہ کے لئے بیس ہزار سے زیادہ تحقیقی جرائد‘ ای بکس اور دیگر مواد تک رسائی ممکن بنائی کی۔ یہ ڈیجیٹل لائبریری بعد میں کئی دیگر ممالک کے لئے ایک ماڈل بن گئی اور انہوں نے پاکستان کے تجربے سے فائدہ اُٹھایا۔ 
ہیورڈ نے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم سے متعلق اپنی تحقیق میں اُن امور کو بھی شامل کیا ہے جن کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کو دھچکا لگا۔ پاکستان کی ضرورت یہ ہے کہ ’ایچ ای سی‘ کو اُس کی اصل شکل میں دوبارہ فعال اور مضبوط بنایا جائے اور ملک میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو فروغ دیا جائے تاکہ پاکستان ایک مضبوط ٹیکنالوجی پر مبنی علمی معیشت بن سکے۔ پاکستان کا مستقبل اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مصنوعات کی تیاری اور برآمد کی صلاحیتوں کی تخلیق میں مضمر ہے تاکہ یہ آئندہ دہائی میں اپنی برآمدات کو تیزی سے فروغ دیتے ہوئے کم از کم 100 ارب ڈالر تک بڑھا سکے۔ یہ صرف تعلیم‘ سائنس و ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کو اعلی ترین قومی ترجیح ہی کے ذریعے ممکن ہے جب اِن اہم شعبوں کے بجٹ کو تین گنا بڑھایا جائے گا اور مصنوعی ذہانت (اے آئی)‘ انٹرنیٹ آف تھنگز (آئی او ٹی)‘ بلاک چین ٹیکنالوجیز‘ روبوٹکس‘ صنعتی بائیو ٹیکنالوجی‘ معدنیات نکالنے اور اِن کی پروسیسنگ‘ انجینئرنگ کا سازوسامان اور دیگر اعلی ویلیو ایڈڈ مصنوعات جیسا کہ آئی ٹی مصنوعات کی تیاری و برآمدات پر توجہ مرکوز کی جائے گی تو اِس سے پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان کا مستقبل اس کے نوجوان ہیں جنہیں اعلیٰ تعلیم سے لیس کرنا چاہئے۔ اگر ہم اقوام عالم میں وقار کے ساتھ کھڑے ہونا چاہتے ہیں تو ہماری حکومت کو اپنی ترجیحات کی سمت (قبلہ) تبدیل کرنا ہوگا اور نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا۔ (مضمون نگار سابق وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بانی و سابق چیئرمین ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عطا الرحمن۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)