بڑھتا ہوا ’آبی بحران‘

پانی کا بڑھتا ہوا بحران صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ اِس حوالے سے دنیا بھر میں تشویش پائی جاتی ہے‘ اِس تشویش میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پانی بحران کی وجہ سے ہر روز لاکھوں افراد متاثر ہوتے ہیں۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور آبی وسائل کی بڑھتی ہوئی طلب کے ساتھ‘ اِس وقت بہت سے ممالک کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو بڑھتے ہوئے آبی بحران کا سامنا کر رہا ہے جس کے عوام اور اس کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی مرتبہ کردہ ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’عالمی سطح پر آبی قلت عام ہوتی جا رہی ہے‘ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جانب سے شائع کی گئی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر ’چھ فیصد‘ لوگوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں اور اس سے بھی زیادہ بڑی تعداد کو صفائی ستھرائی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ پانی کے موجودہ عالمی بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان شامل ہے جس کی آبادی بائیس کروڑ سے زیادہ ہے‘ ملک زراعت پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے‘ جو پاکستان کی شرح نمو (جی ڈی پی) کا تقریبا اُنیس فیصد ہے اور زرعی شعبے کی وجہ سے افرادی قوت کے 40فیصد کو روزگار میسر ہے۔ پاکستان میں زراعت بنیادی طور پر دریائے سندھ سے آبپاشی پر منحصر ہے“ پاکستان کی معیشت اور عوام کے لئے دریائے سندھ کی اہمیت کے باوجود ملک کو پانی کے شدید بحران کا سامنا ہے۔ ’یو این ڈی پی‘ کی الگ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں۔ یہ اہم چیلنج ہے جس کے صحت عامہ پر سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں‘ خاص طور پر بچوں کی صحت اِس سے متاثر ہے جو ہیضہ اور ٹائیفائیڈ بخار جیسی بیماریوں سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا سب سے زیادہ شکار (دوچار) ہیں‘ آبی بحران کے صحت کے مضمرات کے علاؤہ یہ ملک کے زرعی شعبے کو بُری طرح متاثر کر رہا ہے۔ زراعت قومی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان میں زراعت کا شعبہ دریائے سندھ سے آبپاشی پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے جو اب پانی کی قلت کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہے نتیجتاً بہت سے کسان اپنی فصلوں کے لئے کافی پانی حاصل کرنے سے قاصر ہیں‘ جس کی وجہ سے کم پیداوار‘ غذائی عدم تحفظ اور معاشی نقصانات ہو رہے ہیں۔ اس کے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی فوڈ مارکیٹ پر بھی سنگین اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ پاکستان کپاس‘ چاول اور گندم کے بڑے پروڈیوسرز اور برآمد کنندگان میں سے ایک ہے۔ پاکستان میں آبی بحران ملک کے توانائی کے شعبے کو متاثر کر رہا ہے۔ پاکستان اپنی بجلی کا ایک بڑا حصہ ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹس سے پیدا کرتا ہے جو دریائے سندھ کے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔ تاہم پانی کی قلت کے ساتھ‘ توانائی کے شعبے کو چیلنجوں کا سامنا ہے‘ بہت سے پاور پلانٹس اپنی پیداواری صلاحیت سے کم کام کر رہے ہیں یا مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں۔ اس کی وجہ سے بجلی کی بندش اور توانائی کی قلت پیدا ہوئی ہے ملک میں جامع آبی پالیسی کا فقدان ہے اور اس کے آبی وسائل کے انتظام کیلئے کوئی مؤثر گورننس فریم ورک موجود نہیں۔ اس کی وجہ سے آبی وسائل کا حد سے زیادہ استحصال ہو رہا ہے اور بہت سے علاقوں کو زیر زمین پانی کی کمی اور آلودگی کا سامنا ہے۔ سب سے اہم اقدامات جو کئے جا سکتے ہیں وہ پانی کی فراہمی اور انتظام کو بہتر بنانے کے لئے نئی ٹیکنالوجیوں اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری ہے۔حکومت سمندری پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرنے کیلئے نئے ڈیسیلینیشن پلانٹس میں سرمایہ کاری کر سکتی ہے‘یا زراعت میں پانی کے ضیاع کو کم کرنے کے لئے ڈرپ آبپاشی ٹیکنالوجیوں میں سرمایہ کاری کر سکتی ہے۔ مزید برآں‘ حکومت پانی کی زیادہ قابل اعتماد فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے ڈیموں اور آبی ذخائر جیسے پانی ذخیرہ کرنے کی نئی سہولیات میں سرمایہ کاری کر سکتی ہے۔ پانی کا ضیاع کم کرنے اور زراعت اور دیگر صنعتوں میں پانی کی بچت کے طریقوں کو فروغ دینے کی کوششوں کے ساتھ تحفظ اور استحکام پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ (مضمون نگار رکن سندھ اسمبلی ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: شرمیلا فاروقی‘ ترجمہ:اَبواَلحسن اِمام)