غربت بمقابلہ غربت

بنی نوع انسان کو درپیش مشکلات و مصائب کا حل تجویز کرنا آسان لیکن اِسے عملی شکل پہنانا انتہائی مشکل ہے۔ بھوکوں کو کھانا کھلانا‘ مسکینوں کو کپڑا پہنانا‘ یتیموں کی کفالت اور مسکینوں کی مدد کرنے جیسی امور بہت اچھے ہیں لیکن اگر سرانجام بھی دیا جائے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ انسان کی ترقی ”غربت کے خاتمے“ میں مضمر ہے۔ جس میں اس طرح کے تمام اعمال کا احاطہ کیا جاتا ہے لیکن باوجود کوشش بھی غربت کا خاتمہ نہیں ہو رہا۔موجودہ دور کا المیہ یہ ہے کہ غربت کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ افراط زر کی شرح تیس فیصد سے زیادہ ہے۔ شرح نمو کم ہو رہی ہے اور بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ لوگ جو ایک سال پہلے غریب نہیں تھے لیکن غربت کی لکیر کے قریب تھے اب خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں اور مزید لوگ بھی غریب ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں کم آمدنی والے گھرانے بھی شامل ہیں۔ متوسط آمدنی والے گھرانوں کا بجٹ بھی ہر روز کم ہو رہا ہے۔ بدحالی انڈیکس (افراط زر اور بے روزگاری کی شرح کا مجموعہ) کی سطح پندرہ اعشاریہ دو فیصد سے بڑھ کر چھتیس اعشاریہ آٹھ فیصد ہو گئی ہے‘ جو پاکستان کی تاریخ میں اب تک کی بلند ترین سطح ہے۔ بھلے ہی ہم یہ مان لیں کہ مالی سال دوہزاراکیس کے بعد سے موجودہ بے روزگاری کی شرح (چھ فیصد) میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔مالی سال دوہزار اکیس میں پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والی آبادی کا تناسب 9 فیصد تھا۔ کورونا وبا کی وجہ سے غربت کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ مالی سال دوہزاراکیس اور بائیس میں اچھی شرح نمو اور وبائی امراض سے نمٹنے کی قابل ستائش کوشش جیسی وجوہات کی وجہ سے غربت میں کچھ کمی واقع ہوئی لیکن رواں مالی سال دو ہزار تیئس میں سیلاب‘ بلند افراط زر اور بڑے پیمانے پر گرتی ہوئی قومی پیداوار کی وجہ سے غربت میں دوبارہ اضافہ ہوا ہے۔ لائق توجہ امر ہے کہ قومی غربت کی لکیر بنیادی ضروریات کی ایک مقررہ حد ہے جس کا تخمینہ قومی سطح پر فی نفر 3 ہزار 758 روپے لگایا گیا ہے لیکن آج کی تاریخ میں قریب 4 ہزار روپے ماہانہ سے کسی بھی فرد کی خوردنی ضروریات پوری نہیں ہوتیں یا اِس حالت میں بمشکل پوری ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ جب حکومت نے مفت آٹے کی تقسیم کا اعلان کیا تو توقع سے زیادہ لوگ اُمڈ آئے اور یہ توقع سے زیادہ لوگ اِس لئے آئے کیونکہ غربت کے درست اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ بین الاقوامی غربت کی حد (لکیر) پاکستان کی قومی غربت کی لکیر (حد) سے مختلف ہے۔ 1985ء میں وضع کیا گیا تھا کہ اگر کسی شخص کی یومیہ قوت خرید ایک امریکی ڈالر سے کم ہو تو وہ خط غربت سے نیچے ہے لیکن بعد میں اِس قوت خرید کو دو اور تین ڈالر کر دیا گیا جبکہ مہنگائی کے حالات یہ ہیں کہ پانچ ڈالر یومیہ بھی کسی ایک فرد کی یومیہ ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔ جن ممالک میں ایک دو یا تین ڈالر یومیہ کو خط غربت قرار دیا گیا ہے وہاں مہنگائی کی شرح کم ہے اور ایک یا دو یا تین ڈالر سے زیادہ اشیا و اجناس خریدی جا سکتی ہیں۔ اِس کے علاوہ دیگر بین الاقوامی غربت کی لکیریں بھی ہیں کم درمیانی آمدنی کی غربت جسے 3.65 ڈالر یومیہ کہا جاتا ہے اور اپر مڈل انکم غربت جو کہ 6.85 ڈالر یومیہ ہے۔ پاکستان میں ہمیں ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو قلیل‘ درمیانی اور طویل مدت میں غربت کی شرح کو کم کرسکیں۔ ہمیں ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو قلیل اور درمیانی مدت کے ساتھ طویل مدت میں بھی غربت کو کم کرسکیں۔  دانشمندانہ میکرو اکنامک مینجمنٹ بھی افراط زر کو قابو میں رکھنے اور ترقی و روزگار کو برقرار رکھنے کے لئے وسط مدتی پالیسیوں کا حصہ ہونی چاہئے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ریاض ریاض الدین۔ ترجمہ: ابوالحسن اِمام)