سوات کے دردک بیلٹ (توروالی اور گوری) اور گوجری کے علاقوں میں تقریبا پچاس یا ساٹھ سال پہلے لوگوں کو جدید سہولیات تک رسائی حاصل نہیں تھی۔ مذکورہ علاقہ الگ تھلگ تھا‘ جسے باقی دنیا کے لئے غیر پرکشش اور یہاں تک کہ خطرے کے طور بھی دیکھا جاتا تھا۔ سڑکیں نہیں تھیں۔ باہر سے آنے والوں کی تعداد کم تھی۔ لوگ موسم گرما کے لئے چراگاہوں کو چلے جاتے اور سردیوں میں مرکزی وادی میں آتے تھے۔ یہی وجہ رہی کہ یہاں کے زیادہ تر ’لوک گیت‘ چراگاہوں‘ پہاڑوں اور ندیوں کے بارے میں تھے۔ مگر علاقہ اب ماضی کی طرح ناقابل رسائی نہیں رہا۔ سڑکیں تعمیر ہو گئی ہیں۔ نئے ذریعہ معاش اُبھرے ہیں اور اس کے ساتھ نئے سماجی و سیاسی مقابلے بھی جاری ہیں۔ ماضی کے برعکس یہ خطہ اب الگ تھلگ نہیں رہا۔ علاقے میں سیاحت کی ترقی کے ساتھ‘ زمین (اراضی) کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور اس پر تنازعات بھی شدت اختیار کر گئے ہیں۔ سیاحت نے نئے مواقع کے ساتھ کچھ مسائل بھی پیدا کئے ہیں۔ اس علاقے میں سیاحت کے فروغ کے ساتھ ہی مقامی لوگوں نے زمینوں پر عمارتیں تعمیر کرنا شروع کر دیں۔ اس عمل میں سڑک کے کنارے کی قیمتی زمین ضائع ہوئیں اور لوگ دور دراز پہاڑوں پر محصور ہو گئے۔ جب آس پاس کی زمینیں بیچی گئیں‘ تو مقامی لوگوں کو آسان نقدی ملنے کی عادت پڑ گئی‘ جس کی وجہ سے وہ دور دراز کی زمینیں بیچنے پر مجبور ہو گئے۔ اس دوران حکومتی اقدامات سے سیاحت نے مقامی معیشت کو چالیس سے پچاس فیصد فروغ دیا۔ تاہم حیرت انگیز طور پر یہاں سے نقل مکانی میں بھی اضافہ ہوا۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ سیاحت چند لوگوں کے لئے پیسہ لے کر آئی ہے جبکہ کچھ لوگوں کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ بد قسمتی سے سیاحت میں اضافے نے اندرونی تنازعات کو بھی جنم دیا ہے جبکہ ماحولیات پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوا ہے چونکہ کالام اور اس کی وادیاں پورے شمال میں سب سے زیادہ مقبول سیاحتی مقام ہیں لہٰذا یہاں زمین کے تنازعات بھی زیادہ شدید ہیں۔ دیسی چراگاہ ہو یا اوشو جنگل‘ شاہی باغ کا میدان ہو یا مہوڈنڈ‘ یہ تنازعات بڑھ رہے ہیں‘ اس کے ساتھ ہی ان علاقوں میں جنگلات اور آبی وسائل کو بھی بھاری نقصان پہنچا ہے۔سیاحت کے لئے عالمی بینک کے مالی اعانت سے چلنے والے منصوبے خیبر پختونخوا انٹیگریٹڈ ٹورازم پراجیکٹ کے تحت بحرین کی وادی مانکیال‘ سوات اور کالام کے علاقے میں اترور اور موہوڈنڈ وادی میں اونچی چراگاہوں تک رسائی کے لئے نئی سڑکیں بنائی جائیں گی۔ مانکیال قصبے سے جابا تک ایک نئی سڑک کی تعمیر کا عمل شروع ہے اور مقامی لوگوں نے اپنی چراگاہوں کو شہروں کے سرمایہ کاروں کو فروخت کرنا شروع کر دی ہیں۔ یہ زمینیں بہت کم قیمتوں پر فروخت کی جا رہی ہیں چونکہ سیاحوں کی بڑھتی ہوئی آمد اور بڑے ہوٹلوں کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے‘ بہت سے سرمایہ کاروں نے دریا کے کنارے ہوٹل تعمیر کئے ہیں جس نے اگست دوہزاربائیس کے سوات میں حالیہ تباہ کن سیلاب کی شدت میں اضافہ کیا تھا۔ خیبر پختونخوا حکومت نے دریاؤں کو تجاوزات سے بچانے کے لئے ریور پروٹیکشن ایکٹ 2014ء کے نام سے ایک مسودہئ قانون (بل) منظور کر رکھا ہے لیکن اسے کوئی اندازہ نہیں کہ مذکورہ قانون اس پر عمل درآمد کیسے کیا جائے۔ ندی کے کنارے بڑے ڈھانچوں کی تعمیر کو حیرت انگیز طور پر تجاوزات کے طور پر نہیں دیکھا جاتا۔ بحرین شہر کے قریب دارالخوار ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا کیمپ اور پراجیکٹ پلانٹ دریا کے کنارے واقع ہے۔ اس کی دیواروں کی وجہ سے اگست دوہزاربائیس کا سیلابی ریلا لوگوں کی زمینوں کی طرف مڑ گیا جس سے آڑو کے باغ کے باغات کا کٹاؤ ہوا۔ وادی سوات کے خوبصورت بالائی علاقے غیر منصوبہ بند سیاحت کی وجہ سے مشکلات و مسائل کا شکار ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سے مقامی معیشت میں (کچھ) بہتری (ضرور) آئی ہے لیکن اس سے علاقے کو درپیش ماحولیاتی خطرات بڑھ گئے ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: زبیر توروالی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام