خستہ حالی کا راستہ

گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان میں سیاسی بحران رفتہ رفتہ معاشی بحران میں بدل گیا ہے اور اِس کے علاوہ ملک کو موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی سامنا ہے پاکستان میں مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے‘انسانی تاریخ میں اقوام عالم بحرانوں سے گزرتی رہی ہے تاہم پاکستان کو درپیش بحرانوں میں ایک خاص قسم کی ’انفرادیت‘ پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ تاریخ عالم میں اقوام بحران کے وقت متحد ہو جاتی تھیں لیکن پاکستان میں قومی رائے اور اتفاق عمل تقسیم دکھائی دیتا ہے۔ تاریخ عالم کے مطالعے سے بھی پتہ چلتا ہے کہ جن اقوام عالم نے جس قدر افراتفری کی بجائے تحمل اور اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کیا اُنہوں نے اپنے ہاں پیش آنے والے بحرانوں کا اُتنی ہی کامیابی و تیزی سے مقابلہ کیا اور اُن پر قابو پایا۔ پاکستان کی بحرانی کیفیت کو دیکھ کر یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا ملک بحرانوں سے نکلنے کے لئے درست سمت اور درست راہ پر گامزن ہے؟تاریخ عالم میں جن اقوام نے مختلف ادوار میں بحرانوں کا سامنا کیا اُن سے متعلق ایک کتاب (Guns, Germs and Steel) میں مصنف جیرڈ ڈائمنڈ  نے جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ کس طرح سات مختلف ممالک نے خود کو درپیش قومی بحرانوں پر قابو پایا۔ مصنف  نے ایک نیا خیال پیش کیا وہ دلیل دیتے ہیں کہ مختلف ذاتی بحرانوں سے نمٹنے کے لئے استعمال کی جانے والی حکمت عملیوں کو قومی بحرانوں پر قابو پانے کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ میکرو‘ قومی اور پیچیدہ مظاہر کی وضاحت کے لئے انفرادی سطح کے متغیرات کو استعمال کرنے کی مشکل نوعیت کے باوجود‘ یہ کتاب بحرانوں کی نوعیت‘ طریقے اور مدت کے بارے میں سبق آموز واقعات پر مشتمل ہے اور خاص اہمیت رکھتی ہے۔ ”ڈائمنڈ“ کے منتخب کردہ کیسز میں انڈونیشیا اور چلی شامل ہیں‘ انڈونیشیا اور چلی میں جو کچھ ہوا وہ پاکستان کے لئے انتباہ کے طور پر دیکھا جانا چاہئے کیونکہ دونوں ممالک نے ایک جیسے حالات کا سامنا کیا جو بڑی حد تک پاکستان سے مماثل ہے‘ پاکستان کو بھی کوشش کرنا ہو گی کہ وہ سیاسی و معاشی بحران کو پرتشدد مرحلے میں داخل نہ ہونے دے اور جمہوریت کا سلسلہ جاری رہے۔ انڈونیشیا کے معاملے میں‘ ایک غیر ملکی طاقت کے دباؤ میں‘ فوج نے بڑے پیمانے پر کمیونسٹ مخالف کاروائی کی‘ کچھ اندازوں کے مطابق اِس کاروائی میں دس لاکھ سے زیادہ افراد کو ہلاک کیا گیا۔ اس طرح کی شدید بربریت کو دستاویزی فلم ’دی ایکٹ آف کلنگ‘ میں شاندار انداز میں پیش کیا گیا ہے جس نے جنرل سہارتو کی تین دہائیوں پر محیط آمرانہ حکومت کے لانچنگ پیڈ کے طور پر بھی کام کیا‘ چلی میں سلواڈور ایلنڈے کی سوشلسٹ پالیسیوں کے نتیجے میں سیاسی پولرائزیشن اور معاشی بحران نے جنرل پینوشیٹ کو پرتشدد فوجی بغاوت کا موقع فراہم کیا‘ پینوشیٹ حکومت کے تحت معاشی استحکام بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی صورت آیا جو اب بھی چلی کے تصور میں بڑے پیمانے پر موجود ہیں‘ ایک لحاظ سے‘ اِن ’کیس سٹڈیز‘ سے پتہ چلتا ہے کہ ہمیں اپنے معاشروں کو سوچنے سمجھنے سے لیس کرنا چاہئے اور صرف یہی ایک طریقہ ہے کہ جس کی مدد سے سیاسی یا معاشی عدم استحکام کو قابو میں لایا جاسکتا ہے‘جب ہم کسی ملک کو درپیش بحرانوں کا جائزہ لیتے ہیں تو اُس وقت یہ بات ضمنی حیثیت اختیار کر جاتی ہے کہ اِس بحران کو پیدا کرنے کا ذمہ دار کون تھا بلکہ الزام تراشی یا حقائق تک پہنچنے کی بجائے مستقبل پر نظر رکھی جاتی ہے‘ عالمی بحرانوں سے نکلنے والی اقوام کے تجربات کی روشنی میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور عوام کو متحد ہو کر ممکنہ کثیر الجہتی اور زیادہ شدت کے بحران سے نکلنے کی راہ تلاش کرنا ہوگی اور ترقی کے راستے پر ملک کو دوبارہ گامزن کرنے کیلئے سیاسی قیادت کو سر جوڑ کرمعاملات طے کرنا ہوں گے۔ بحرانوں سے نکلنے کی واحد صورت مذاکرات ہیں‘ اگر سیاسی جماعتیں آپس میں مل بیٹھ کر معاملات طے نہیں کرتیں اور اِس کے بغیر ہی قومی انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے تو اِس سے ملک میں مزید افراتفری پیدا ہونے کا اندیشہ ہے‘گزشتہ ایک سال میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت نے لاکھوں پاکستانیوں کی زندگیوں کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔ پاکستان کو درپیش اِن میں سے چند معاشی مسائل کا تعلق روس یوکرین جنگ کی وجہ سے بھی ہے جبکہ سیاسی غیر یقینی کی صورتحال میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے جو معاشی بحران کا بنیادی محرک ہے۔ معیشت کو مستقبل کے سیاسی اتار چڑھاؤ سے محفوظ رکھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ایک اعلیٰ ترین ’اقتصادی مشیروں کی کونسل‘ تیار کی جائے جس میں نہ صرف مذکورہ شعبے کے متعلقہ ماہرین شامل ہوں بلکہ اِن کی مدت ِملازمت کا آئینی تحفظ بھی حاصل ہو۔ درمیانی مدت میں پاکستانی سیاست دان نیپال کی مثال دیکھ سکتے ہیں جہاں جمہوری نمائندگی کو بہتر بنانے کیلئے انتخابی نظام میں متناسب نمائندگی متعارف کی گئی اور جہاں ساٹھ فیصد قانون ساز پارلیمان کے ارکان بنا انتخاب اور چالیس فیصد ارکان متناسب انتخابی نظام کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں اور جہاں پورے ملک کو ایک حلقے کے طور پر لیتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیا جاتا ہے‘اُمید کی جا سکتی ہے کہ سیاسی قیادت ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر بات چیت کرے گی۔  (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: اقدس افضال۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)