پاکستان میں آبپاشی (فصلوں کو پانی دینے) کا نظام دنیا کا سب سے ’بڑا نظام‘ ہے۔ اِس کے باوجود‘ صرف 63فیصد پاکستانی گھرانے ’غذائی تحفظ‘ ہیں۔ انڈس بیسن آبپاشی کا نظام 14 ملین ہیکٹر سے زائد رقبے پر محیط ہے۔ اس کے باوجود پاکستان خطے میں غذائی قلت کی دوسری سب سے زیادہ شرح والا ملک ہے جہاں پانچ سال سے کم عمر کے اٹھارہ فیصد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ پاکستان کم از کم چار متنوع زرعی ماحولیاتی زونز پر مشتمل ملک ہے۔ انڈس بیسن گندم‘ چاول‘ گنے اور کپاس کی کاشت کے لئے موزوں ہے۔ بلوچستان کا سطح مرتفع مویشیوں کی کھیتی باڑی‘ کھجور‘ انار اور خوبانی جیسے پھلوں کی پیداوار میں مدد کرتا ہے۔ شمالی پہاڑی علاقہ گندم‘ جو‘ مکئی‘ سیب اور چیری اُگانے کے لئے موزوں ہے۔ ساحلی علاقے ماہی گیری‘ آبی زراعت اور جھینگے‘ جھینگوں اور دیگر سمندری مصنوعات کی پیداوار کے لئے موزوں ہیں۔ گلوبل ہنگر انڈیکس (جی ایچ آئی) کے مطابق پاکستان 92 ممالک میں سے 116ویں نمبر پر ہے جو ملک میں بھوک و افلاس کی ’سنگین‘ صورتحال کی نشاندہی کر رہا ہے۔سات کروڑ بیس لاکھ (بہتر ملین) سے زائد پاکستانی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں‘ جس کا مطلب ہے کہ انہیں اپنی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے محفوظ اور غذائیت سے بھرپور خوراک تک مناسب رسائی حاصل نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس غذائی عدم تحفظ کی وجہ زرعی صلاحیت کی کمی نہیں بلکہ موجود زرعی پیداواری صلاحیت سے کم استفادہ ہے۔ پاکستان میں ’غذائی عدم تحفظ‘ کو تین اہم عوامل سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ کم پیداواری صلاحیت‘ ناقص بیج اور زرعی شعبے کے لئے ناکافی قرضوں تک رسائی۔ اس وقت پاکستان فی ہیکٹر صرف تین میٹرک ٹن گندم پیدا کر رہا ہے جو نیوزی لینڈ دس میٹرک ٹن‘ مصر‘ چین اور سعودی عرب چھ میٹرک ٹن فی ہیکٹر گندم کے مقابلے میںکم ہے۔ تصور کریں کہ اگر پاکستان اپنی گندم کی پیداوار کو چھ میٹرک ٹن فی ہیکٹر تک بڑھائے تو ملک ممکنہ طور پر سالانہ سات ارب ڈالر مالیت کا برآمدی سرپلس پیدا کر سکتا ہے۔ یہ ’آئی ایم ایف‘ کے تین سالہ قرضوں کے مساوی آمدنی ہوگی۔ چونکہ غذائی عدم تحفظ کا خاتمہ ایک طرح سے سلامتی کو مضبوط کرنا ہے اس لئے چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) طویل عرصے سے آبپاشی‘ زرعی تحقیق اور ترقی کا حصہ رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں حالیہ برسوں میں چین کی غذائی سلامتی میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ سال 2020ءمیں‘ چین کی اناج کی پیداوار 669ملین ٹن کی ریکارڈ سطح پر تھی۔ اس طرح روسی فوج ملک کے زراعت کے شعبے میں بھی ایک اہم کردار ادا کرتی ہے جس میں زمین کی ترقی‘ بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور جدید کاشتکاری کی تکنیک کا استعمال شامل ہے۔ فلپائن کی مسلح افواج‘ ویت نام پیپلز آرمڈ فورسز اور کورین پیپلز آرمی بھی اپنے اپنے ممالک کے زرعی شعبوں میں اسی طرح کی مدد فراہم کر رہے ہیں۔ دنیا بھر کے زرعی اعداد و شمار کم از کم تین بنیادی فوائد پر روشنی ڈال رہے ،مندرجہ بالا حقائق سے یہ اندازہ مشکل نہیں کہ ملکی دفاع کو غذائی تحفظ کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے اور اِس غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے زرعی شعبے کی تنظیمی صلاحیت‘ بنیادی ڈھانچہ‘ لاجسٹکس‘ مہارت اور تربیت میں افواج کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام