گلگت بلتستان میں لینڈ ریفارمز

مجوزہ ”گلگت بلتستان لینڈ ریفارمز ایکٹ 2023ء“ اور اِس سے متعلق مختلف اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے اٹھائے گئے خدشات و تحفظات لائق توجہ ہیں۔ گلگت بلتستان حکومت کا دعویٰ ہے کہ ”مجوزہ لینڈ ریفارمز اِیکٹ 2023ء“ کا مقصد خطے میں زمین کی ملکیت کے معاملات کو کنٹرول کرنے کیلئے قانونی اور پالیسی فریم ورک متعارف کروانا ہے‘ بل میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ گلگت بلتستان میں غربت میں کمی‘ بہتر زرعی پیداوار کے ذریعے نئے معاشی مواقعوں کی فراہمی‘ غذائی تحفظ یقینی بنانے اور خود کفالت کیلئے بنایا گیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ حکومت وسائل تک رسائی بڑھا کر سماجی و معاشی ترقی کو فروغ دینے کا ارادہ رکھتی ہے بالخصوص قابل استعمال زمینوں میں مساوی حقوق قائم کئے جائیں گے تاہم گلگت بلتستان میں مجوزہ ”لینڈ ریفارم بل (قانون سازی)“ سے متعلق مقامی آبادی شدید تحفظات کا اظہار کر رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں‘ سول سوسائٹی تنظیموں اور قانونی برادری سمیت مختلف اسٹیک ہولڈرز نے بل کے اجزأ پر ’عدم اطمینان‘ کا اظہار کیا ہے‘اس عدم اطمینان کی وجوہات کا گہرائی سے الگ مطالعہ کی ضرورت ہے‘ جہاں تک مذکورہ مجوزہ بل کی بنیادی شقوں کا جائزہ پیش کرنا ضروری ہے جن کی وجہ سے گلگت بلتستان میں  مایوسی پائی جاتی ہے ’بل‘ میں گلگت بلتستان کے اِن اضلاع کی وضاحت کرنے کے لئے ”غیر آباد اضلاع“ جیسی اہم اصطلاحات کی وضاحت کی گئی ہے جن کے لئے ’لینڈ ریونیو ایکٹ 1967ء‘ کے تحت بیان کردہ حقوق کا ریکارڈ تیار نہیں کیا گیا ہے۔ اسی طرح ”سرکاری زمین“ سے مراد وہ زمین ہے جو صوبائی یا وفاقی حکومت کی طرف سے الاٹ حاصل یا خریدی یا لیز پر دی گئی ہو یا جو کسی صوبائی یا وفاقی محکمے کے قبضے میں ہو یا جسے سرکاری زمین کے طور پر آباد ضلع کے ریونیو ریکارڈ میں درج کیا گیا ہو۔ صرف وفاقی یا صوبائی حکومت کی جانب سے معاوضہ دی گئی زمینوں کو ’سرکاری زمین‘ قرار دیا جائے۔ اِسی طرح ’جزوی زمین‘ میں (الف) بنجر یا غیر ترقی یافتہ اراضی جو کسی شخص کی ملکیت یا قبضہ میں نہ ہو یا حکومت کی طرف سے تقسیم کی گئی ہو یا (ب) جزوی طور پر قبضہ شدہ‘  تقسیم شدہ یا ترقی یافتہ زمین جس کے قبضے‘ تقسیم یا ترقی کے لئے قانونی یا روایتی جواز کا فقدان ہو‘ (ج) قابل کاشت (قابل کاشت) بنجر زمین اور دیگر قدرتی طور پر قابل استعمال زمین جو کسی بھی شخص کی جائز ملکیت میں نہیں‘ جو اگر تیار ہوجائے تو کسی قدرتی آفت کا سبب نہیں بنتی ہے یا ماحولیاتی‘ ارضیاتی یا قدرتی خرابی کا سبب نہیں بنتی ہے یا (د) چراگاہ کو ریونیو ریکارڈ میں مشترکہ چراگاہ کے طور پر شناخت دی گئی ہو یا اس کے کسی حصے کو جسے گلگت بلتستان لینڈ آپریشن بورڈ نے مذکورہ ایکٹ کے تحت ڈسٹرکٹ لینڈ آپریشن بورڈ کی سفارش پر جزوی زمین کے طور پر شناخت کیا اور سابقہ اراضی جیسا کہ ریونیو ریکارڈ میں درج ہے سوائے اس زمین کے جو کسی شخص یا ادارے یا محکمے (وفاقی یا صوبائی) کے قانونی یا جائز قبضے میں ہے یا ان کے نام پر محفوظ (منتقل) ہے۔ مجوزہ بل کے دوسرے حصے میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی (جی بی ایل اے) سے منظوری کے بعد بل پر عمل درآمد کے لئے ڈھانچہ اور ادارہ جاتی انتظامات کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔ ادارہ جاتی انتظام کمیٹیوں کا مجموعہ جو بل پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گا۔ مثال کے طور پر گلگت بلتستان لینڈ آپریشن بورڈ (جی بی ایل اے بی) حکومت کی جانب سے تشکیل دیا جاتا ہے تاکہ متعلقہ حق دار موضع گاؤں کے حق دار ارضیوں کے درمیان جزوی زمینوں کی تقسیم کے لئے پالیسی گائیڈ لائنز جاری کی جا سکیں۔ بورڈ کے پاس زمین کی تقسیم اور برقرار رکھنے کی اقسام کے لئے ہدایات اور رہنما خطوط جاری کرنے کا اختیار ہے۔ اس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی ایک یا ایک سے زیادہ قابل تقسیم زمینوں کے لئے تقسیم کے منصوبے کی تشکیل یا نفاذ میں کسی بھی مشکل کو دور کرے۔ ’جی بی ایل اے بی‘ وزیر اعلیٰ‘ اراکین صوبائی اسمبلی اور مختلف سیکرٹریز اور متعلقہ محکموں کے افسران پر مشتمل ہوگا۔ ہر ضلع کے لئے ایک ڈسٹرکٹ لینڈ آپریشن بورڈ (ڈی اے بی) بھی مقرر کیا گیا ہے جو ’جی بی ایل اے بی‘ کے ذریعہ جاری کردہ پالیسی گائیڈ لائنز کے تحت جزوی زمینوں کی تقسیم کا مسودہ تیار کرتا ہے۔ ’ڈی اے بی‘ ڈپٹی کمشنر کلکٹر‘ اراکین صوبائی اسمبلی اور متعلقہ محکموں کے مختلف افسران اور اہلکاروں پر مشتمل ہے۔ بورڈز اپنے متعلقہ علاقوں میں زمین کی منصفانہ اور منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کے لئے ذمہ دار ہے۔ گلگت بلتستان میں اِس مجوزہ ’لینڈ ریفارم بل‘ کو مقامی آبادی کی جانب سے شدید تحفظات کا سامنا ہے۔ مجموعی طور پر مجوزہ ’گلگت بلتستان لینڈ ریفارمز ایکٹ 2023ء‘ میں کچھ بنیادی خامیاں ہیں اور اسے قانون ساز اسمبلی میں منظوری کے لئے جانے سے پہلے مختلف ترامیم اور تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: عامر حسین۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)