کوڑا کرکٹ تلفی: ماحول دوستی

چودہ دسمبر 2022ء کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنے 77ویں اجلاس میں تیس مارچ کو ’زیرو ویسٹ‘ کا عالمی دن منانے کے لئے ایک قرارداد منظور کی اور اِس کے بعد ’زیرو ویسٹ‘ کا پہلا عالمی رواں سال منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر ماحول دوست اقدامات کی تشہیر ہے تاکہ پائیدار ترقی کے بہت سے اہداف (ایس ڈی جیز) کے حصول میں مدد مل سکے۔ دنیا کو مختلف قسم کے فضلے کا سامنا ہے۔ پہلی کوشش تو یہ ہے کہ فضلہ کم پیدا ہو اور دوسری کوشش یہ ہے کہ فضلہ مناسب طریقے سے ٹھکانے لگایا جائے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ دنیا کا قریب ہر ملک کی معاشی بحران سے گزر رہا ہے لیکن عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ کھانے پینے کی اشیا بڑی مقدار میں ضائع کی جاتی ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق ”ہر سال پیدا ہونے والی تمام خوراک کا تقریبا ایک تہائی استعمال ہونے سے پہلے ہی ضائع ہوجاتا ہے۔ یہ سالانہ تقریبا 1.3 ارب ٹن مقدار کے مساوی ضائع ہونے والا کھانا ہے‘ جس کی کل مالیت تقریبا ایک کھرب امریکی ڈالر بنتی ہے۔خوراک کے ضیاع کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں فصل کی کٹائی کی ناقص تکنیک‘ ذخیرہ کرنے کی پرانی صلاحیت‘ کھانے کی خراب ہینڈلنگ یا پروسیسنگ وغیرہ اِس کے محرکات میں شامل ہیں۔ اس سے زمین‘ پانی‘ خام مال اور انسانی توانائی کا ضیاع بھی ہوتا ہے۔ دوسری جانب ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے سال 2023ء کے اختتام تک 34 کروڑ 50 لاکھ سے زیادہ لوگ ’غذائی عدم تحفظ‘ کا شکار ہوں گے جو سال 2020ء کے مقابلے دوگنا سے بھی زیادہ تعداد ہے۔ کھانے کی کمی یا مضر صحت کھانا صحت کے بہت سے مسائل کا باعث بنتا ہے۔ کھپت اور پیداوار کو اپنانے سے لاکھوں افراد کو غذائی عدم تحفظ اور غربت کے جال میں پھنسنے سے بچایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کھپت اور پیداوار کے درمیان توازن نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی قلت ایک اور سب سے بڑا چیلنج ہے۔ یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق ”سال 2025ء کو ایک ایسے سال کے طور پر دیکھا گیا ہے جب پاکستان ’پانی کی قلت‘ والے ملک کی فہرست میں شامل ہوسکتا ہے۔“ پاکستان میں پانی کی کمی کی کئی وجوہات ہیں جن میں بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے ناکافی ذخائر اور روزمرہ استعمال میں پانی کا ضیاع شامل جیسے محرکات شامل ہیں۔ ایک اور قسم کا فضلہ جس نے ہمارے سیارے پر تباہ کن اثرات مرتب کئے ہیں وہ کاربن کا اخراج ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے معاشی مسابقت کے بعد صنعتی انقلاب کے بے لگام عمل کے نتیجے میں عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے اور آب و ہوا کی تبدیلی بھی رونما ہوئی ہے۔ آج سیلاب‘ گلیشیئرز پگھلنے‘ ہیٹ ویو اور خشک سالی کی شکل میں موسمیاتی تبدیلی کی آفات لاکھوں لوگوں کی زندگیوں اور معاش کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ پاکستان میں حالیہ سیلاب نے پہلے سے ہی بگڑتی ہوئی معیشت کو تیس ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔ آج ہم اپنی کھپت اور پیداوار سے پیدا ہونے والے عدم توازن کی وجہ سے آب و ہوا کی تبدیلی کے انتہائی مضر اثرات کا قریب سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔ معاشی برتری حاصل کرنے اور اختراعات کے ذریعے زندگی کی سہولتوں سے لطف اندوز ہونے کی دوڑ میں بلا روک ٹوک فوسل ایندھن اور جنگلات کی کٹائی نے فضا میں گرین ہاؤس گیسوں (جی ایچ جی) کے قدرتی توازن کو متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے اوسط عالمی درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح پلاسٹک بیگز کا استعمال ماحول کی حفاظت کے لئے چیلنج ہے۔ محکمہئ تحفظ ماحولیات پاکستان کی جانب سے سال 2019ء میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 55 ارب پلاسٹک بیگز استعمال کئے جاتے ہیں جبکہ پلاسٹک کے استعمال میں ہر سال اوسطاً پندرہ فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ پلاسٹک بیگز کو آسانی سے ری سائیکل یا بائیو ڈی گریڈ نہیں کیا جاسکتا اور انہیں زمین میں تحلیل ہونے میں ہزاروں سال لگ جاتے ہیں۔ پلاسٹک کے چھوٹے ذرات مٹی اور آبی ذخائر کو آلودہ کرتے ہیں اور پودوں کی صحت مند نشوونما میں رکاوٹ بھی ڈالتے ہیں اور زندہ جانداروں کے لئے مہلک ثابت ہوتے ہیں۔سینٹر فار بائیولوجیکل ڈائیورسٹی کے مطابق شمالی بحر الکاہل میں مچھلیاں ہر سال بارہ سے چوبیس ٹن پلاسٹک کھاتی ہیں‘ جو اِن مچھلیوں کی آنتوں میں پھنس کر موت کا سبب بنتا ہے اور پلاسٹک بڑی مچھلیوں‘ سمندری ممالیہ جانوروں اور انسانی سمندری غذا کھانے والوں میں بھی منتقل ہو رہی ہے اس کے علاوہ پلاسٹک نکاسیئ آب کے نظام کو بند کر دیتا ہے۔ ہسپتالوں اور فیکٹریوں سے ہوا میں خارج ہونے والا فضلہ بھی ایک مسئلہ ہے جسے مناسب طریقے سے ٹھکانے نہیں لگایا جاتا۔ انہیں کھلی جگہوں یا آبی ذخائر میں پھینک دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف پینے کا پانی بلکہ زراعت کے لئے استعمال ہونے والے آبی ذخائر بھی آلودہ ہوتے ہیں اور یہ ایک جان لیوا صورتحال ہے۔ عالمی بینک کے مطابق جنوبی ایشیا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ٹھوس فضلہ پیدا کرنے والا ملک ہے جو سالانہ 33 لاکھ 40 ہزار (334ملین) ٹن فضلہ (کوڑا کرکٹ) پیدا کر رہا ہے۔ فضلے کی ایک اور اہم قسم ’ای ویسٹ‘ ہے۔ اقوام متحدہ نے ’ای ویسٹ‘ کی تعریف بیٹریوں کے ضائع ہونے پر پیدا ہونے والے کچرے سے کی ہے اِس کچرے میں پارے جیسا زہریلا اور خطرناک مادہ شامل ہوتا ہے جو انسانی اور ماحولیاتی صحت کے لئے سنگین خطرہ ہے۔ سال دوہزارپندرہ میں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کی ایک اور تحقیق سے معلوم ہوا کہ دنیا کے ساٹھ سے نوے فیصد الیکٹرانک کچرے‘ جن کی مالیت تقریبا اُنیس ارب ڈالر ہے‘ ہر سال غیر قانونی طور پر یہاں وہاں پھینکا جا رہا ہے۔ صحت عامہ پر ’ای ویسٹ‘ کے منفی اثرات بھی تباہ کن ہیں۔ ’ڈبلیو ایچ او‘ کے مطابق ’ای ویسٹ‘ کی وجہ سے قبل از وقت بچوں کی پیدائش اور پھیپھڑوں یا سانس کی بیماریاں جیسے مسائل عام ہو رہے ہیں۔ ”صفر فضلہ“ کے ہدف کو حاصل کرنے کے لئے متعدد ماحولیاتی چیلنجز ہیں۔ سب سے پہلے‘ ہمیں قدرتی وسائل کے قدرتی توازن کو برقرار رکھنے کے لئے وسائل کی کھپت اور پیداوار کے نمونوں کے درمیان توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں فضلہ کم سے کم کرنے اور اسے دوبارہ استعمال اور ری سائیکلنگ کی جدید تکنیک سیکھنے اور اپنانے کی ضرورت ہے۔ قوانین کے نفاذ اور گڈ گورننس سے ’زیرو ویسٹ‘ کے اہداف حاصل کرنے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ظل ہما۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)