آبی ہتھیار 

سندھ طاس معاہدہ (آئی ڈبلیو ٹی) پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑی جنگوں اور متعدد تنازعات کا حل ہے لیکن وقت کے ساتھ بھارت کے جارحانہ رویئے کی وجہ سے سندھ طاس معاہدہ بھی ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے جبکہ پاک بھارت کشیدگی اب ”آبی جنگ“ کی طرف بڑھ رہی ہے‘ یوں لگتا ہے کہ اب کوئی بھی معاہدہ نہیں بلکہ جنگ دونوں ممالک کے درمیان مشترک آبی وسائل کی تقسیم اور اِن کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ پاک بھارت آبی جنگ دو محاذوں پر ہو رہی ہے‘ ایک دریائے جہلم اور چناب پر کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو پاور منصوبوں کے غیر قانونی ڈیزائن پر ہیگ میں ثالثی عدالت میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں اور دوسرا بین الاقوامی قانون کے دائرے میں‘ جہاں بھارت نے ایک بار پھر پاکستان کو نوٹس بھیجا ہے کہ وہ چھ دہائیوں پرانے ’آئی ڈبلیو ٹی‘ میں ترمیم کر سکتا ہے‘ یہ دھمکی معمولی نہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی جنگ کا تعلق بالائی بھارت کے دریاؤں سے ہے جو پاکستان میں تمام پانچ دریاؤں کی روانی جاری رکھنے کیلئے پانی فراہم کرتے ہیں اس آبی تنازعے کا آغاز نہرو سے ہوا جنہوں نے ایڈوینا کے ساتھ اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا اور ریڈکلف کو مجبور کیا کہ وہ مدھوپور اور فیروز پور ہیڈ ورکس بھارت کو دے کر پنجاب کی اصل سرحدی لائن کو دوبارہ تشکیل دیں اور اِس کے نتیجے میں فوری طور پر ہزاروں ایکڑ پاکستانی زمین کو بنجر کر دیں‘بھارت نے ہمیشہ پانی کو جبر کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے پاکستان کی خودمختاری کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان کو پہلے ہی پانی کی قلت کا سامنا ہے اور ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کئے گئے تو یہ سال دوہزارپچیس تک بھارت سے آنے والے پانی والے پاکستانی دریا خشک ہو جائیں گے‘ یہ پاکستان کے لئے بڑی تباہی ہوگی  اِس سے قحط عام ہوگا اور پاکستان اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے اناج کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہو جائے گا اگرچہ ’آئی ڈبلیو ٹی‘ ایک مخلوط حل تھا لیکن یہ دونوں ممالک کے لئے ضرورت کی وجہ سے پیدا ہوا اور تمام فریقوں کے لئے جیت کی جدید سفارت کاری کی بہترین مثالوں میں سے ایک ہے‘ پاکستان کی جانب سے تین دریاؤں کے استعمال سے محرومی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اسے منگلا‘ تربیلا اوردیگر ڈیموں کی ٹرائیلوجی کی تعمیر کے لئے فنڈز ملیں گے۔ان ڈیموں کی تعمیر پاکستان کے پانیوں پر بھارت کے بڑھتے ہوئے غلبے کو پورا کرنے کے لئے پاکستان کی جوابی حکمت عملی کا لازمی حصہ تھی۔ کالا باغ ڈیم ان تینوں میں سب سے اہم تھا لیکن اِسے نہیں بنایا جا سکا تاہم بھارت نے اس معاہدے کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کیا‘ اپنے مشرقی دریاؤں پر خصوصی حقوق کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف پانی کے حملے کی منصوبہ بندی کی اور پاکستان نے خود ہی کو نقصان پہنچایا؛پاکستان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ اِس نے ڈیم نہیں بنائے یہ بھارت کے لئے بہت اچھا ثابت ہوا ہے‘اس کے نتیجے میں پاکستان پانی کی بدترین قلت کا شکار ہے اور دریاؤں کا 38 ملین ایکڑ فٹ سے زائد پانی ہر سال سمندر میں گر کر ضائع ہو رہا ہے‘ بھارت کا استدلال ہے کہ پانی ایک عالمی اثاثہ ہے جبکہ پاکستان اسے سمندر میں پھینک کر ضائع کر رہا ہے اور بھارت اِس پانی سے اپنی ضروریات پورا کر رہا ہے‘ اصل سوال یہ ہے کہ بھارت کے آبی حملے سے کیسے نمٹا جائے؟ ابھی دیر نہیں ہوئی اور پاکستان پر جو قانون مسلط کیا گیا ہے اس کا مقابلہ کئی محاذوں پر کیا جانا چاہئے۔ عدالتی حملے میں ثالثی کا فیصلہ بنیادی طور پر تکنیکی بنیادوں پر کیا جانا چاہئے لہٰذا پاکستان کو چاہئے کہ وہ دنیا میں دستیاب متعلقہ شعبوں کے ماہرین کی بہترین تکنیکی اور قانونی ٹیم کو اکٹھا کرے تاکہ انتہائی ضرورت کی اِس گھڑی میں قوم کی نمائندگی کی جا سکے۔ عالمی عدالت میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والا موجودہ وفد بھلے ہی اچھا ہو لیکن یہ ماہرین پر مشتمل نہیں ہے اور اِس سے آنے والی تباہی کا اندیشہ ہے۔ پاکستان کو وہ غلطیاں نہیں دہرانی چاہئیں جو اُس سے ’ریکوڈک‘ کے معاملے میں ہوئی تھیں۔ قانونی مؤقف یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدہ اہم ہے اور اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا‘ جس پر ناقابل واپسی طور پر عمل درآمد کیا جائے اور پاکستان کو اُس کے حق کے مطابق پانی دیا جائے جو اِس کا بنیادی انسانی حق بھی ہے۔ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی دھمکی پاکستان کو قدرتی آبی وسائل سے محروم کرنے کا غیر منصفانہ طریقہ ہے جس سے نمٹنے کے لئے تکنیکی و قانونی حکمت عملیوں کو یکجا کرتے ہوئے ایک سیاسی اور سفارتی حکمت عملی تک رسائی وضع کرنا ہوگی‘ پاکستان کو بین الاقوامی برادری‘ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تمام تنظیموں کو یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان نے شروع سے ہی ’آئی ڈبلیو ٹی‘ پر من و عن عمل درآمد کیا ہے‘بھارت کو تفویض کردہ دریاؤں پر جتنے چاہیں ڈیم تعمیر کرنے کی اجازت ہے اور اپنا پانی جس جگہ چاہے پہنچا سکتا ہے لیکن بھارت کو پاکستان کا پانی روکنے کا حق نہیں جو کہ وہ روک چکا ہے اور پاکستان کے کئی دریا عملی طور پر خشک ہو چکے ہیں اور آبپاشی کے خاطرخواہ وسائل دستیاب نہیں ہیں۔ عالمی برادری کو بتایا جانا چاہئے کہ بھارت نے ہمیشہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش کی ہے اور ’رن آف دی ریور‘ منصوبوں کے بہانے پاکستان کو تفویض کئے گئے دریاؤں پر ڈیم تعمیر کئے ہیں۔ پاکستان کے دریاؤں کے بہاؤ کو کاٹنا بڑی انسانی تباہی ہوگی اور اس سے بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر اور یہاں تک کہ بھارتی پنجاب کے کچھ حصوں میں بڑے سیلاب آئیں گے۔ خاص طور پر پنجاب کے دونوں اطراف کے کسانوں کے فائدے کے لئے‘ اس نکتے پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے‘ جس سے پاکستان فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ دوسری طرف بھارت کو اِس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ اگر وہ یک طرفہ طور پر ’آئی ڈبلیو ٹی‘ سے باہر نکلنے کا فیصلہ کرتا ہے اور پاکستان کا پانی کاٹ (کم کر) دیتا ہے تو وہ خطرناک مثال قائم کرے گا۔ برہم پتر ندی بھارتی ریاست آسام میں بہتی ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف پانی کی بندش کے ذریعے کوئی بھی جبری اقدام چین کو بھارت کے پانی روکنے کی اجازت دیدے گا۔ (مضمون نگار سینئر وکیل ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: سید علی ظفر۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)