زرعی پیداوار کی بحالی

پاکستان میں زرعی پیداوار کی بحالی و ترقی اُس وقت تک عملاً ممکن نہیں ہو گی جب تک ’نہری آبپاشی کا نظام‘ مرمت نہیں ہوتا جبکہ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ اِس نظام کی دیکھ بھال کے لئے درکار اخراجات کا صرف ایک چوتھائی ادا کیا جا رہا ہے۔ 1970ء کی دہائی سے پانی کی قیمت (چارجز) کی صورت اِس نظام کی دیکھ بھال کی پوری لاگت کاشتکاروں سے وصول کی جاتی تھی جسے ’آبیانہ‘ کہا جاتا ہے۔ فی ایکڑ سطحی پانی کے چارجز کی موجودہ اوسط شرح کسان ٹیوب ویلوں کے لئے ادا کی جانے والی قیمت کا ایک چوتھائی ہے۔ پانی کی فلیٹ قیمت یا پانی کے یکساں چارجز اعلی کارکردگی کی آبپاش ٹیکنالوجیز اپنانے اور پانی کے تحفظ کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ پنجاب میں فی ایکڑ 135 روپے آبیانہ وصول کیا جاتا ہے جبکہ خریف کے لئے اَسی روپے اور ربیع کے لئے پچاس روپے فی ایکڑ کی قیمت دوہزار اکیس تک مستقل تھی جس میں بعدازاں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ آبپاشی کا آبیانہ فی ایکڑ نہ صرف کم ہے بلکہ اِس طریقے سے جمع ہونے والی رقم خرچ شدہ قیمت کا ساٹھ فیصد ہوتی ہے۔ کپاس اور چاول کے لئے آبیانہ کی قومی اوسط شرح یکساں ہے حالانکہ چاول کو کپاس کے مقابلے میں ساٹھ فیصد زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ آبپاشی کے اخراجات فصلوں کے منافع کی عکاسی نہیں کرتے۔ بہت سے ایشیائی ممالک میں پانی کے چارجز مجموعی آمدنی کا ساٹھ اعشاریہ چھ فیصد مقرر ہیں۔ مستقبل میں پانی کی دستیابی مزید بے ترتیب ہونے کا امکان ہے کیونکہ آب و ہوا کی تبدیلی سے کرہئ ارض کے اوسط درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے‘ ہمالیہ میں برف کم ہو رہی ہے (سندھ طاس کا نظام بارشوں اور گلیشیئرز پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے) اور بارش کے تغیرات کی وجہ سے دریاؤں میں پانی پہلے ہی کم ہے جبکہ پاکستان ہیٹ ویو‘ غیر معمولی بارشوں اور شدید سیلاب جیسی آفات کا سامنا کر چکا ہے۔ تھرپارکر‘ چولستان‘ تھل‘ جنوبی خیبرپختونخوا‘ بلوچستان اور سابقہ فاٹا کے اضلاع پسماندہ اور موسمیاتی اثرات سے زیادہ متاثرہ علاقے ہیں اور آنے والے ماہ و سال میں اِن کے مزید متاثر ہونے کا امکان ہے۔ ان علاقوں میں پانی حاصل کرنے کے لئے پانی کی قلت کے شکار ماحولیاتی نظام‘ سرمایہ کاری اور مالیاتی وسائل میں فصلوں کے لئے تحقیق اور ٹیکنالوجی سے درپیش مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ یہ علاقے پاکستان کے کل زیر کاشت رقبے کا سترہ فیصد ہیں۔ زرعی تحقیق و ترقی: ماضی میں کی گئی زرعی تحقیق کے اثرات بنیادی طور پر جدید ’اِن پٹ‘ پر انحصار کرنے والی ٹیکنالوجیوں پر مرکوز تھے لیکن پائیداری اور کارکردگی کے مسائل مربوط فصل کے انتظام‘ مٹی کی صحت‘ اِن پٹ اور وسائل کے معاشی استعمال و اندرونی غذائی اجزأ کے ذرائع کے ساتھ بیرونی اِن پٹ کے استعمال کی حوصلہ افزائی نہیں کر رہے۔ زیادہ تر تحقیقی اخراجات فصلوں پر ہوتے ہیں۔ کچھ پانی کے وسائل پر بھی لیکن مویشیوں اور ماہی گیری جیسے زرعی شعبوں پر بہت ہی کم تحقیق ہو رہی ہے۔ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ (آر اینڈ ڈی) کو ایسی ٹیکنالوجیز تیار کرنے کی ضرورت ہے جو سیلاب‘ خشک سالی‘ گرمی کی لہر‘ سرد درجہ حرارت جیسے دباؤ کو برداشت کرسکیں اور خاص طور پر چھوٹے پیمانے کے کھیتوں کے لئے کیڑوں اور بیماریوں کے خلاف مزاحمت بھی رکھتی ہوں۔ سبز انقلاب میں سرمایہ کاری سے زرعی منافع پینسٹھ فیصد تک اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ پبلک ریسرچ سسٹم کئی تکنیکی صلاحیتوں‘ مالی وسائل کی دستیابی‘ مینجمنٹ اور گورننس کوآرڈینیشن‘ کسانوں کے تجربات کی روشنی میں کام کرتا ہے۔ زراعت کے لئے مختص ہونے والا سالانہ بجٹ کا بڑا حصہ زرعی اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں‘ الاؤنسز‘ پنشن اور یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی پورا کرنے ہی میں خرچ ہو جاتا ہے۔ تحقیقی سرگرمیوں پر آپریٹنگ اخراجات یا سازوسامان اور رسد کی خریداری کے لئے سرمائے کے اخراجات مختصر مدت کے کچھ غیر ملکی امداد یافتہ منصوبوں کے علاؤہ دستیاب نہیں۔ زراعت کے شعبے میں ’پی ایچ ڈی‘ ڈگری رکھنے والے ملازمین کی کمی ہے۔ زرعی ترقی‘ اِس شعبے کے لئے معاوضے اور تحقیق کے لئے کافی نہیں۔ یہ امر بھی تشویشناک ہے کہ طویل عرصے سے نجی شعبہ زرعی تحقیق میں سرمایہ کاری نہیں کر رہا۔ ’آر اینڈ ڈی‘ میں سرمایہ کاری کرنے والی نجی فرموں کو ٹیکس کریڈٹ جیسی مراعات دی جانی چاہئیں۔ نجی شعبے کی متعدد کمپنیاں حال ہی میں زرعی شعبے کی طرف متوجہ ہوئی ہیں لیکن انہیں بڑے پیمانے پر اپنے کام کو بڑھانے کے لئے مستقل بنیادوں پر مالی سرپرستی کی ضرورت ہے‘ خاص طور پر وہ چھوٹے کسان جو فصل کے پیداواری اخراجات برداشت نہیں کر سکتے اُن کی مدد کیسے کی جائے اور اُنہیں منافع بخش زراعت حاصل کرنے کے قابل کیسے بنایا جائے اِس کے لئے زیادہ محنت کی ضرورت ہے تاکہ بہتر کاشت کاری‘ ہائبرڈز‘ ٹرانسجینک اور دیگر مصنوعات کی تشہیر اور پیداوار کے تغیر ات و دباؤ یا پیداواری لاگت کے نقصانات کم کئے جا سکیں۔زرعی فنانسنگ: رواں مالی سال کے آٹھ ماہ کے لئے سٹیٹ بینک کے تازہ ترین تخمینوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بینکار اداروں نے ایک لاکھ قرض دہندگان کو زرعی قرضوں کی مد میں ایک کھرب روپے سے زائد رقم تقسیم کی ہے جو ماضی کے مقابلے کم ہے۔ نجی کمرشل بینک‘ مائیکرو فنانس بینک اور اسلامی بینک اب اہم قرض دہندگان بن گئے ہیں جبکہ زرعی ترقیاتی بینک کا کردار بھی زرعی شعبے کو قرضوں کی فراہمی میں محدود ہو رہا ہے۔ کل واجب الادا قرض دہندگان میں چھوٹے کسانوں کا حصہ ترانوے فیصد ہے۔ کھیتی باڑی میں اضافے اور زرعی شعبے میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے ’کنٹریکٹ فارمنگ‘ کو فروغ دینا ضروری ہے جس سے گنے‘ مکئی اور تمباکو کی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ آلو کی فصل میں کنٹریکٹ فارمنگ کی کچھ روشن مثالیں موجود ہیں جو چھوٹے پیمانے کے کسانوں کو کسی قسم کی مارکیٹ سے جوڑنے والی ویلیو چین کے ساتھ منسلک کرتی ہیں۔ یہ کسانوں کے لئے مستحکم اور متوقع آمدنی کے دھارے کو یقینی بناتا ہے اور خریدار یا پروسیسروں کے لئے معیار کی فراہمی کی یقینی مقدار کو یقینی بناتا ہے فیصلہ سازوں کو زرعی ترقی کے لئے چھوٹے کسانوں کے مفادات کے بارے سوچنا چاہئے اور چھوٹے کاشتکاروں کو زیادہ قرض اور زیادہ مراعات بالخصوص اُن کی مالی ضروریات پورا کر کے ایک قابل اعتماد میکانزم فراہم کیا جا سکتا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عشرت حسین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)