پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بدستور کشیدہ ہیں۔ طویل عرصے سے جاری سفارتی تعطل بھی اپنی جگہ بدستور برقرار ہے جس کی وجہ سے نئی پریشانیاں جنم لے رہی ہیں اور دیرینہ اختلافات و تنازعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رواں سال جب ’جی ٹوئنٹی‘ سربراہی اجلاس کے میزبان بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے سری نگر میں ’جی ٹوئنٹی‘ سیاحتی ورکنگ گروپ کا اجلاس منعقد کرنے کا اعلان کیا تو اسلام آباد کی جانب سے اس پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ وزارت خارجہ کے ایک بیان میں اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیا گیا اور اسے ’اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جموں و کشمیر پر اپنے غیر قانونی قبضے کو برقرار رکھنے‘ کا حربہ کہا گیا۔ پاکستان نے لیہ اور سرینگر میں مشاورتی یوتھ افیئرز فورم کے دو دیگر اجلاسوں کے شیڈول پر بھی اعتراض کیا۔ کل جماعتی حریت کانفرنس نے بھی مسلم ممالک اور چین پر زور دیا ہے کہ وہ متنازعہ علاقے میں ہونے والے مذکورہ اجلاسوں میں شرکت نہ کریں۔پاکستان کے ردعمل کا جواز یہ ہے کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں عالمی اجلاسوں کا انعقاد کر کے اِن علاقوں میں اپنے غیرقانونی اقدامات کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لئے استعمال کرے گا۔ یہ غیرقانونی اقدامات اگست 2019ء میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی قانونی حیثیت تبدیل کرنے اور اِسے غیر قانونی طور پر بھارتی یونین میں ضم کرنا ہیں۔ بھارت کی جانب سے وسیع پیمانے پر مقبوضہ کشمیر میں پابندیوں‘ کشمیری مسلمانوں کا فوجی محاصرہ اور انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں نے وہاں کی صورتحال کو سنگین بنا رکھا ہے۔ دہلی نے گزشتہ دو سالوں میں کشمیری مسلمانوں کو بے اختیار بنانے کے لئے قانونی‘ آبادیاتی اور انتخابی تبدیلیاں بھی کی ہیں لیکن پاکستان کے احتجاج کا بھارت کے فیصلوں پر خاطرخواہ اثر نہیں پڑا حالیہ چند مہینوں کے دوران پاک بھارت تعلقات میں سب سے زیادہ اہم پیش رفت 1960ء کے سندھ طاس معاہدے کی وجہ سے ہوئی۔ چھ دہائیوں تک‘ یہ معاہدہ دونوں ممالک کو جنگوں‘ محاذ آرائیوں اور تناؤ سے روکے ہوئے ہے لیکن اب اس معاہدے کے مستقبل پر سوالات اٹھ رہے ہیں کیونکہ سرحد پار سے بھارت دریاؤں کے پانی کی تقسیم اور انتظام کو اپنی مرضی کے مطابق کنٹرول کر رہا ہے۔ پچیس جنوری دوہزارتیئس کو بھارت نے ’انڈس کمیشن‘ کے ذریعے پاکستان کو سندھ طاس معاہدے میں ترمیم کے ارادے سے آگاہ کیا۔ اس سے بھارت کے مؤقف میں سختی کی عکاسی ہوتی ہے۔ پاکستان طویل عرصے سے دریائے جہلم پر 330 میگاواٹ کے کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کی تعمیر اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں دریائے چناب پر 850 میگاواٹ کے رتلے ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کی تعمیر کے منصوبے پر اعتراض کر رہا ہے۔ یہ تنازعہ کئی دہائیوں سے دوطرفہ مذاکرات اور مستقل انڈس کمیشن کے اجلاسوں میں اٹھایا جاتا رہا ہے۔ سال دوہزارسولہ میں پاکستان نے عالمی بینک سے رابطہ کیا جس نے اس معاہدے کی ثالثی کی اور اس پر دستخط کرنے والا بھی ہے تاکہ اس تنازعے سے نمٹنے کے لئے ایڈہاک ثالثی عدالت قائم کی جا سکے اگرچہ بھارت نے 2018ء میں کشن گنگا پروجیکٹ مکمل کیا لیکن بینک کو عدالت کو فعال کرنے کے ساتھ ایک غیر جانبدار ماہر کو بھی فعال کرنے میں چھ سال لگے جسے بھارت نے طلب کیا تھا۔ دی ہیگ میں ستائیس جنوری کو ہونے والی پہلی سماعت سے دو روز قبل‘ جس کا بھارت نے بائیکاٹ کیا تھا‘ دہلی نے اسلام آباد کو نوٹس جاری کیا تھا کہ وہ یک طرفہ طور پر معاہدے میں ترمیم کرے گا۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہلی کسی بھی عدالتی عمل سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے اور مجوزہ معاہدے میں ترمیم کے ذریعے تنازعات میں تیسرے فریق کی مداخلت کو روکنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ عدالت نے اسلام آباد سے کہا ہے کہ وہ تیس دن کے اندر اس کے نوٹس کا جواب دے۔ پاکستان نے معاہدے کے تنازعات کے طریقہ کار میں ترمیم کے لئے بھارت کے مطالبے کو مسترد کیا اور دہلی پر الزام عائد کیا کہ وہ ہیگ میں ثالثی کی کاروائی سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اپریل کے اوائل میں پاکستان نے کمشنر برائے سندھ طاس کے خط کے ذریعے بھارت کے ’ترمیم کے نوٹس‘ کا جواب دیا جسے عام نہیں کیا گیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ خط میں ’نوٹس‘ پر وضاحت مانگی گئی ہے‘ جس میں دہلی کے خدشات کو سننے کی پیش کش کی گئی اور اصرار کیا گیا ہے کہ بھارت معاہدے میں یک طرفہ طور پر ترمیم نہیں کر سکتا۔ پانی کی قلت کا شکار پاکستان کے لئے سندھ طاس معاہدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اِس معاہدے اور پانی کی تقسیم کے حوالے سے تنازعے نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اور ماحول کو اِس حد تک کشیدہ کر رکھا ہے کہ کرکٹ بھی اِس دو طرفہ کشیدگی سے نہیں بچ سکی ہے۔ ستمبر میں ایشیا کپ کی میزبانی کرنے کی پاکستان کی باری ہے۔ اے سی سی کے صدر بھارتی کرکٹ بورڈ کے جے شاہ (بی جے پی کے وزیر داخلہ امیت شاہ کے بیٹے) ہیں۔ میزبان ملک پاکستان سے مشورہ کئے بغیر جے شاہ نے یک طرفہ طور پر جنوری میں ٹورنامنٹ کے شیڈول کا اعلان کردیا تھا۔ فروری میں جب پی سی بی کے چیئرمین نجم سیٹھی نے بورڈ اجلاس میں احتجاج کیا تو جے شاہ نے بھارت کی جانب سے پاکستان میں کرکٹ کھیلنے سے انکار سے آگاہ کیا۔ نجم سیٹھی نے کہا کہ اسی دوطرفہ معیار کے مطابق پاکستان کے لئے بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ میں کھیلنا ناممکن ہوگا۔ انہوں نے ہائبرڈ آپشن کی پیشکش کی جس میں بھارت کے میچز نیوٹرل وینیو میں کھیلے جائیں گے اور باقی میچز پاکستان میں کھیلے جائیں گے‘ یہ فارمولا بعد میں ورلڈ کپ پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے تاہم یہ معاملہ ابھی تک حل نہیں ہوا ہے۔ پاک بھارت تعلقات غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔ اگرچہ عملی امور پر ورکنگ لیول پر سفارتی رابطے وقفے وقفے سے جاری ہیں لیکن دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کے امکانات بہت کم ہیں۔ (مضمون نگار امریکہ‘ برطانیہ اور اقوام متحدہ میں بطور سفیر پاکستان کی نمائندگی کر چکی ہیں۔ بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر ملیحہ لودھی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام