موسمِ بہار میں ٹنڈو محمد خان اور ٹھٹہ کو جوڑنے والے 17.5 کلومیٹر طویل سر آغا خان جھیروک مولا کٹیار پل پر سفر کرنا ایک اچھا تجربہ ہے۔ اردگرد نظر آنے والے سورج مکھی کے باغات اس سفر کو انتہائی حسین بنادیتے ہیں۔ ٹھٹہ شہر کی جانب مزید سفر کریں تو یہ باغات سڑک کے ساتھ ساتھ چلتے نظر آتے ہیں۔ٹھٹہ، بدین اور ٹنڈو محمد خان کے کچھ اضلاع میں سورج مکھی کی فصل مارچ میں کٹائی کے لیے تیار تھی۔ تاہم سورج مکھی کی پیداوار گزشتہ چند سالوں میں مایوس کن رہی ہے۔ ایک دہائی قبل سورج مکھی کی پیداوار میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ سال 11-2010 میں اس کی پیداوار 2 لاکھ 64 ہزار 964 ہیکڑ اور 3 لاکھ 41 ہزار 641 میٹرک ٹن تھی جبکہ اب سال 23-2022 میں اس کی پیداوار 34 ہزار 936 ہیکڑ کے ساتھ 36 ہزار 244میٹرک ٹن رہ گئی ہے۔ کاشتکاروں کو سورج مکھی کے بیجوں کی مارکیٹ اور پیداوار سے متعلق مسائل کے باعث اب چارے کی فصلیں، تربوز جیسے پھلوں، گندم اور سرسوں کی فصلوں کو سورج مکھی کی کاشت والے علاقوں میں اُگایا جارہا ہے۔ سندھ چیمبر آف ایگریکلچر کے نائب صدر نبی بخش ساتھیو بھی 2007 سے 2012 تک سورج مکھی کی پیداوار سے وابستہ تھے۔ البتہ اب انہوں نے اس کی کاشت ترک کردی ہے۔انہوں نے کہا کہ مارکیٹ کے مسائل سنگین ہیں کیونکہ نہ تو مارکیٹ میں مناسب قیمت ملتی ہے اور نہ ہی حکومت قیمتوں کا تعین کرنے میں مدد کرتی ہے۔ سرسوں کے بیجوں کی قیمت اچھی ملنے کا امکان ہوتا ہے اس لیے بڑے پیمانے پر سرسوں کی کاشت کی جارہی ہے۔ان کے مطابق جب ایک دہائی قبل سورج مکھی کی پیداوار کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیا تب حکومت نے بھی اس کی سرپرستی کی لیکن مراعات بند ہونے کے باعث آہستہ آہستہ کسانوں نے اس کی کاشت میں دلچسپی لینا کم کردی۔ سورج مکھی کی کاشت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور یہ خوردنی تیل کے درآمدی بل کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔سورج مکھی کی فصل کو لگانے کے لیے ضروری ہے کہ زمین کو کاشت سے قبل بہتر انداز میں تیار کیا جائے۔ سرسوں کی فصل تیار ہونے میں 90 دن لگتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں سورج مکھی کی فصل کو تیار ہونے میں 5 ماہ کا وقت درکار ہوتا ہے۔ اگر
سرسوں کی فصل میں کم خرچ کے ساتھ 8 ہزار 500 روپے فی من آمدن ہوتی ہے تو سورج مکھی میں زیادہ سرمایہ کاری کرنے کے باوجود 7 ہزار روپے فی من آمدن ہوتی ہے۔ نبی بخش ساتھیو نے کہا کہ اگر اس پر مراعات دی جائیں گی تو کاشتکار ایک بار پھر اس کی کاشت کی جانب راغب ہوسکتے ہیں۔سندھ آبادگار بورڈ میں ان کے ہم منصب محمود نواز شاہ بھی ان سے اتفاق کرتے ہیں۔ حتی کہ پنجاب میں برسوں کی محنت کے بعد زیتون بھی کاشت کیا جارہا تھا لیکن سندھ خاطر خواہ زمین ہونے کے باوجود سورج مکھی سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر سورج مکھی پر توجہ دی جائے تو ہم اس کی فصلوں کو متنوع بناسکتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں پالیسی اقدامات کی ضرورت ہے۔ کیا کسی نے توجہ دی کہ آخر اتنا بڑا رقبہ کیوں ضائع ہوگیا؟ سورج مکھی کو سرسوں پر برتری حاصل ہے کیونکہ اسے اکتوبر سے فروری تک مختلف ادوار میں اُگایا جاسکتا ہے۔سورج مکھی کی کاشت کی صلاحیت تو اپنی جگہ قائم رہی تاہم، اس سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا اور اس کے رقبے میں آنے والی تیز ترین کمی پر توجہ نہیں دی گئی۔ سندھ تیل کے بیجوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے وفاق کی جانب سے شروع کیے جانے والے تقریباً 11 ارب روپے کے 5 سالہ قومی پروگرام میں شامل نہیں ہوا جوکہ 2019 میں تقریباً 309 ارب روپے کے وزیراعظم قومی ایگریکلچر ایمرجنسی پروگرام کے تحت شروع کیا گیا تھا۔اس پروگرام کے تحت بیجوں کی کاشت پر 5 ہزار روپے فی ایکڑ اور تیل کے بیجوں کی مشینری کی خریداری پر کاشتکاروں کو 50 فیصد تک ہی سبسڈی دی جانی تھی۔یہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان 60 اور 40 فیصد کی شراکت تھی۔ سندھ نے تاخیر سے یہ فیصلہ لیا کہ وہ اس منصوبے میں شامل ہوگا جوکہ جون 2024 میں ختم ہونے والا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ سندھ نے لاگت میں اپنی
اشتراک کے لیے پی سی-1 کو بھی اس شرط پر بھیجا تھا کہ وفاقی حکومت پہلے صوبے کو حصہ جاری کرے۔ تاہم یہ معاملہ تاخیر کا شکار ہے۔یہ معاملہ اب پلاننگ کمیشن کے ہاتھ میں ہے جسے سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی سے منظوری کی ضرورت ہے۔ اگر اس منصوبے میں 2 سال تک کی توسیع کی جاتی ہے تو سندھ کو اس کا بڑا حصہ مل سکتا ہے کیونکہ کل مختص رقم میں سے ساڑھے 8 ارب روپ اب تک خرچ نہیں کیے گئے ہیں۔این او ای پی کے تحت 20 سے 40 لاکھ ایکڑ زمین پر کنولا اور سورج مکھی کی کاشت اور 5 لاکھ ایکڑ پر تل کی کاشت کو بڑھا کر تیل کے بیجوں کی پیداوار کو بڑھانے کا اعادہ کیا گیا تھا۔ 10 من فی ایکڑ تیل کے بیجوں کی کاشت سے پاکستان درآمدات کی مد میں ایک ارب ڈالر تک کی بچت کرسکتا ہے۔ این اے ای پی کا مقصد گندم کی پیداوار میں 7من فی ایکڑ اضافہ کرنا شامل ہے، اس طرح 20 سے 40 لاکھ ایکڑ گندم کی اراضی کو کنولا اور سورج مکھی کی کاشت کے لئے بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ اس وقت جب ہمارے پاس زرِمبادلہ کے ذخائر کی کمی ہے، پاکستان میں 5 ارب 30 کروڑ ڈالر مالیت کا خوردنی تیل درآمد کرچکا ہے۔ یہاں تک کہ پام آئل کی درآمد کی لاگت 2018 میں 639 ڈالر فی ٹن سے بڑھ کر 2022 میں ایک ہزار 275 ڈالر فی ٹن تک پہنچ گئی۔ان کے مطابق کاشت کاروں اور مارکیٹ کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے، سورج مکھی ایک ایسی فصل ہے جو زمین کو کمزور کردیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس وقت تحقیق پر مبنی اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ درآمد شدہ بیجوں کے زیادہ استعمال کی وجہ سے اس کی لاگت بھی زیادہ پڑتی ہے جس کی وجہ سے یہ مہنگے اور کم منافع بخش ہوجاتے ہیں۔انہوں نے تجویز پیش کی کہ حکومت کو ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جن کے تحت کمپنیوں کے ساتھ سورج مکھی کے پیداواری معاہدے یقینی بنائے جائیں اور خوردنی تیل کی درآمد پر انحصار کو کم کیا جائے۔پنجاب نے این او ای پی کے تحت اپنا زیادہ تر حصہ حاصل کرلیا ہے۔ حکام کا خیال ہے کہ تیل کے بیجوں کے منصوبے کو اس کی کامیابی کے پیش نظر وسعت دی جاسکتی ہے۔ ( بشکریہ ڈان، تحریر:محمد حسین خان،ترجمہ: ابوالحسن امام)