سال 2023ء کی پہلی سہ ماہی میں چین کی اقتصادیات 4.5 فیصد کی شرح نمو سے بڑھی ہے اور اقتصادی شرح نمو بڑھنے کا سلسلہ گزشتہ کئی برس سے جاری ہے اور خاص بات یہ ہے کہ یہ غیرمعمولی شرح نمو ’انتہائی پراُمید اندازوں‘ سے بھی زیادہ ہے۔ پہلی سہ ماہی میں اس مضبوط اقتصادی آغاز کے ساتھ چین سال 2023ء کے دوران اُس ’معاشی بحالی‘ کے لئے تیار ہے جو کورونا وبا کی وجہ سے متاثر ہوئی تھی۔ چین کی مضبوط معاشی کارکردگی کے اثرات یقینی طور پر دیگر ممالک پر بھی پڑیں گے‘ جس سے توقع ہے کہ وسیع تر عالمی معاشی بحالی کو تحریک ملے گی۔
اٹھارہ اپریل کو قومی ادارہ برائے شماریات (این بی ایس) نے بتایا کہ رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں چین کی جی ڈی پی چار کھرب ڈالر سے زیادہ بلند ہو چکی ہے‘ جو سال بہ سال ساڑھے چار فیصد اضافے کی نشاندہی کر رہی ہے۔ پچھلی سہ ماہی کے مقابلے میں یہ نمایاں اضافہ ہے۔ یہ اعداد و شمار اِس لئے اہم ہیں کیونکہ چین کی اقتصادی ترقی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جبکہ عالمی سطح پر مندی کا رجحان ہے اور بہت سی معیشتیں زبوں حالی کے دور سے گزر رہی ہیں۔ اِن اعداد و شمار نے مختلف شعبوں میں ملک کی متاثر کن ترقی کو بھی اُجاگر کیا ہے۔ معاشی ترقی کا یہ پیٹرن بالکل ویسا ہی ہے جیسا ’آئی ایم ایف‘ نے پیش گوئی کی تھی۔ تین فروری دوہزارتئیس کو ’آئی ایم ایف‘ کی ویب سائٹ نے ڈیاگو اے سرڈیرو اور سونالی جین چندرا کی ایک رپورٹ شائع کی جس میں چین کے بارے میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ ”چین کی معیشت رواں سال بحال ہو جائے گی کیونکہ کورونا کی وجہ سے پابندیاں ختم کر دی گئی ہیں جس کے بعد نقل و حرکت اور معاشی سرگرمی میں تیزی آئے گی اور اِس سے چین کی مقامی و عالمی معیشت کو فروغ ملے گا۔ تازہ ترین تخمینوں کے مطابق رواں سال (دوہزار تئیس) میں چین کی معیشت کی شرح نمو پانچ فیصد سے زیادہ رہے گی جبکہ گزشتہ سال یہ شرح تین فیصد تھی۔ یہ بات صرف چین ہی نہیں بلکہ پاکستان جیسے چین کے دوست ممالک اُور دنیا کے لئے بالعموم ”اچھی خبر“ ہے کیونکہ توقع ہے کہ چینی معیشت رواں سال عالمی ترقی میں ایک تہائی حصہ ڈالے گی۔ پہلی سہ ماہی کے اعداد و شمار نے اس پیش گوئی کی تصدیق کی ہے۔ اعداد و شمار ’ماہ بہ ماہ‘ ترقی کے رجحان کو بھی ظاہر کر رہے ہیں کیونکہ کاروبار خود کو ڈھالتے ہیں اور صارفین آہستہ آہستہ اپنا اعتماد حاصل کرتے ہیں۔ چین کی ترقی کا قابل ذکر مثبت عنصر اِس کے خوردہ شعبے میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جو جو مارچ کے مہینے میں توقعات سے کہیں زیادہ رہا اور یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ صارفین کا اعتماد‘ جو گزشتہ سال کی غیر یقینی صورتحال سے متزلزل ہوا تھا اب آہستہ آہستہ بحال ہو رہا ہے۔
چین میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر (جائیداد کی خرید و فروخت کا شعبہ) استحکام اور بحالی کی طرف جا رہا ہے اور ایسے اشارے مل رہے ہیں جن سے مثبت رجحان کی نشاندہی ہوتی ہے۔ رواں سال کی پہلی سہ ماہی کے میکرو اکنامک اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ چین کی معیشت اہم ساختی اصلاحات کے دور سے گزر رہی ہے۔ فکسڈ اثاثوں کی سرمایہ کاری میں پانچ فیصد سے زیادہ سالانہ اضافہ غیرمعمولی ہے جبکہ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں سرمایہ کاری میں سال بہ سال سات فیصد اضافہ دیکھا جا رہا ہے جو معاشی ترقی و توسیع کا بیان ہے۔ اسی عرصے کے دوران ملک کی ہائی ٹیک صنعتوں میں سولہ فیصد سے زیادہ سرمایہ کاری ہوئی جبکہ ’ای کامرس‘ خدمات میں سرمایہ کاری کا حجم ساڑھے اکیاون فیصد سے بھی زیادہ رہا جو نمایاں اضافہ ہے۔ اِن اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ چین کی معاشی تبدیلی میں تیزی آ رہی ہے جبکہ زیادہ تر ڈیجیٹل اور ہائی ٹیک معیشت کی طرف منتقلی زور پکڑ رہی ہے۔ غیر یقینی صورتحال اور چیلنجز سے دوچار عالمی معاشی منظرنامے کا سامنا کرتے ہوئے چین نے ایک بار پھر اپنی قابل ذکر لچک اور مطابقت پذیری کا مظاہرہ کیا ہے۔ کورونا کے وبائی امراض اور ایک سال سے جاری یوکرین تنازعہ کی وجہ سے دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی افراط زر کے پس منظر میں‘ مارچ کے مہینے کے دوران ’یوآن‘ کے حساب سے ملک کی برآمدات میں سال بہ سال تئیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ مارکیٹ کی توقعات سے کہیں زیادہ ہے اور گزشتہ دسمبر میں زیرو کووڈ پابندیوں کے خاتمے کے بعد چین کی مضبوط بحالی کا ثبوت ہے۔چین کی معاشی کلیدی اشارئیوں میں استحکام اور یہاں تک کہ ترقی کے واضح اشارے موجود ہیں۔ مثال کے طور پر پیداوار کی طلب مستحکم دکھائی دے رہی ہے جبکہ روزگار کی شرح اور صارفین کی قیمتیں عام طور پر مستحکم رہی ہیں۔ ذاتی آمدنی میں اضافے کا رجحان بھی جاری ہے اور مارکیٹ کی توقعات میں بھی نمایاں بہتری آئی ہے۔ یہ رجحانات چینی معیشت میں وسیع تر ترقی کے نمونے کی نشاندہی کرتے ہیں‘ جو مارکیٹ کے لئے امید کا احساس پیدا کر رہے ہیں۔ دسمبر دوہزاربائیس میں زیادہ تر مغربی ماہرین اقتصادیات کا خیال تھا کہ آئندہ برس چینی معیشت ترقی کرے گی اور وہ چین کی کارکردگی کافی خوفزدہ بھی تھے اور یہ سبھی خوف درست ثابت ہوئے ہیں۔ چین کی حکومت مبارک باد کی مستحق ہے جس نے معاشی ترقی کو بڑھانے اور کاروباری اداروں کے لئے زیادہ سازگار ماحول پیدا کرنے کے لئے مناسب اقدامات کئے اور معاشی ترقی کے لئے سازگار ماحول فراہم کیا۔ چین کے ساتھ امریکہ کی طویل تجارتی جنگ‘ عالمی سطح پر کورونا وبا کے اثرات تین سال سے زیادہ عرصے سے جاری ہیں اور یہ اثرات اور جاری روس یوکرین تنازعہ کے باوجود‘ چین نے اپنی معاشی ترقی کی باگ ڈور پر مضبوط گرفت نہیں کھوئی۔ امریکہ کے ساتھ پانچ سال کی معاشی جنگ کے بعد بھی چین معاشی بحالی کے لئے زیادہ پرعزم دکھائی دے رہا ہے اور اگرچہ عالمی منظر نامہ پیچیدہ و غیر متوقع ہے جس میں اشیا ء کی گھریلو طلب کم ہے لیکن ایک لچکدار معاشی بحالی کے لئے بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ چین کی پہلی سہ ماہی کی متاثر کن کارکردگی اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ اِس کی معیشت بقیہ تین سہ ماہیوں میں بھی قابل ذکر ترقی حاصل کرے گی جبکہ دنیا کی بڑی معیشتیں مشکلات سے نبرد آزما ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عمران خالد۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)