امریکی معیشت

سال دوہزاربیس کے موسم بہار میں‘ کورونا عالمی وبائی مرض کے آغاز کے ساتھ ہی‘ امریکی معیشت کو صنعتی مغرب کے بیشتر ممالک کی طرح شدید جھٹکے کا سامنا کرنا پڑا۔ سٹاک مارکیٹ میں تیزی سے گراوٹ آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے مہینوں کے اندر لاکھوں ملازمتیں ختم ہوگئیں۔ سابق صدر ٹرمپ کے بعد جو بائیڈن انتظامیہ کی قیادت میں امریکی حکومت کو بدترین صورتحال کا خدشہ تھا اور اس نے معیشت کو متحرک کرنے کے لئے کھربوں ڈالر خرچ کئے‘ جس سے کاروباری اداروں کے ساتھ امریکی گھرانوں کو بھی سہارا ملا۔ حیران کن طور پر امریکی معیشت اور سٹاک مارکیٹ میں تیزی سے بہتری آئی اور چند سالوں کے اندر ہی کھوئی ہوئی تمام ملازمتیں بحال ہو گئیں۔ پچھلے چند برس سے‘ امریکی معیشت مسلسل ترقی کر رہی ہے اور وبائی امراض سے ہونے والے معاشی نقصانات کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے تاہم ملک اب بھی معاشی مندی موجود ہے۔ تمام شعبوں کے ماہرین اقتصادیات کے ساتھ ساتھ کاروباری امور کے ماہرین بھی یہ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ امریکی معیشت کسی بھی وقت دوبارہ مندی (کساد) کا شکار ہو سکتی ہے کیونکہ معیشت‘ کی بحالی اِس کا دوبارہ سکڑنا شروع ہو چکا ہے۔دی اکانومسٹ نامی میگزین میں شائع ہونے والے ایک حالیہ تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ نہ صرف امریکی معیشت مسلسل ترقی کر رہی ہے بلکہ گزشتہ کئی دہائیوں میں اس نے مغرب اور جاپان کی دیگر تمام صنعتی معیشتوں کو بھی تیزی سے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اب عالمی جی ڈی پی میں امریکہ کا حصہ پچیس فیصد ہو چکا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ افراط زر پر قابو پانے کے لئے بڑھتی ہوئی شرح سود نے امریکی معیشت کو سہارا دیا ہے تاہم ایسے خطرات موجود ہیں جو امریکی کی معاشی ترقی کو پھر سے متاثر کر سکتے ہیں۔ دی اکانومسٹ میں شائع ہونے والی ایک سرخی میں کہا گیا ہے کہ ’امریکی معاشی کارکردگی میں اتارچڑھاؤ عجیب نوعیت کا ہے‘ ایسے بہت سے عوامل کا ذکر کیا گیا ہے جنہیں امریکی معیشت کی ترقی کا راز قرار دیا جاتا ہے۔ ان میں دستاویزی معیشت اور آزادانہ کاروباری ماحول‘ نوجوانوں میں سرمایہ کاری اور سماجی متحرکیت شامل ہیں۔ مثال کے طور پر‘ مغربی یورپ کے برعکس‘ امریکہ کی افرادی قوت ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں نقل مکانی کرنے کے لئے تیار رہتی ہے اگر اُنہیں بہتر معاوضہ دیا جائے اور اُن کی قابلیت و اہلیت کے مطابق بہتر ملازمتیں دستیاب ہوں۔ دوسری طرف چند ایسے عوامل بھی ہیں جو امریکی کی معاشی ترقی کے لئے خراب (مخالف) ثابت ہو رہے ہیں۔ ان میں امریکہ میں بڑھتی ہوئی آمدنی کی عدم مساوات شامل ہے جبکہ کم آمدنی رکھنے والے شہریوں کے لئے سماجی تحفظ کی فراہمی سے ایک منفی تحریک پیدا ہوئی ہے۔ ان میں سے سب سے مشکل انتہائی جانبدارانہ سیاسی ماحول ہے جو اکثر اسٹیک ہولڈرز کو ابھرتے ہوئے امریکی معاشی مسائل حل کرنے کے لئے اکٹھے ہونے اور تعمیری طور پر کام کرنے سے روکتا ہے۔ اکثر اوقات دونوں سیاسی جماعتوں کی ترجیحات معاشی پالیسیوں کے ذریعے احتیاط سے سوچنے پر اتفاق کرنے کے بجائے انتہائی نظریاتی ایجنڈے پر عمل کرتی ہیں۔ اِس وقت ایک بحران اس بات کو لے کر پیدا ہو رہا ہے کہ امریکی حکومت کو قانون کے مطابق قرض لینے کی حد پر عمل کرنا ہوگا۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے لگاتار امریکی حکومتیں اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ کر رہی ہیں۔ یہ فرق سرکاری بانڈز جاری کرکے قرض لینے کے ذریعے پورا کیا جا رہا ہے چونکہ لگاتار آنے والی حکومتیں قرض لے کر آگے بڑھ رہی ہیں اِس لئے کانگریس نے وقتاً فوقتاً قرض لینے کی حد میں اضافے کی اجازت دی ہے جس سے حکومت پہلے سے کئے گئے اخراجات یا قانونی ادائیگیوں کے لئے قرض لیتی ہے۔ قرض لینے کی یہ حد تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ گزشتہ جنوری سے جب ری پبلکن پارٹی نے امریکی ایوان نمائندگان کا کنٹرول سنبھالا تھا تو اُس نے اعلان کیا تھا کہ وہ قرضے کی حد میں اس وقت تک اضافے کی اجازت نہیں دے گی جب تک کہ سرکاری اخراجات میں کمی (کٹوتی) نہیں کی جاتی تاہم امریکی حکومت کے سرکاری اخراجات کا تقریباً 80 فیصد ایسے پروگراموں پر خرچ ہوتا ہے جن میں کٹوتی مشکل ہے۔ قانون کے تحت ضروری سماجی تحفظ کی ادائیگیوں‘ بزرگوں کے لئے میڈیکیئر انشورنس‘ قرض پر سود کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات کو کوئی بھی فریق کم نہیں کرنا چاہتا۔ وائٹ ہاؤس اور کانگریس کے درمیان مذاکرات کے عمل میں‘ ری پبلکنز نے آخر کار اعلان کیا کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں (آب و ہوا) سے متعلق پروگراموں کی مد میں کٹوتی کی جائے یا ان میں زبردست کمی کی جائے‘ جس سے قرض لینے میں زیادہ کمی نہیں آئے گی۔ دنیا امریکہ کی اِس ضمن میں کٹوتی کی مذمت کر رہی ہے اور چاہتی ہے کہ امریکہ عالمی سطح پر تحفظ ماحول کی کوششوں کو جاری رکھے اور اِس میں کمی نہ لائے۔ رواں موسم گرما یا موسم خزاں میں امریکی ڈالر کی قدر میں تیزی سے گراوٹ آسکتی ہے جس کے بعد یہ نہیں کہا جا سکتا کہ امریکہ کی بظاہر صحت مند معیشت کو کس طرح جھٹکا لگ سکتا ہے اور وہ ماضی کی طرح کورونا وبا جیسی صورتحال کا سامنا کر سکتی ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: قیصر شریف۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)۔