کراچی سے متصل سمندر اور ساحل پر پھیلی گندگی کو دیکھ کر دل دہل جاتا ہے۔ کیماڑی جیٹی اور اس کے آس پاس کی کشتیوں کا بیسن ایک ایسی تصویر پیش کرتا ہے جو صفائی ستھرائی اور ماحولیاتی دیکھ بھال کا ذرا سا بھی خیال رکھنے والے کسی بھی فرد کے لئے تکلیف دہ ہو سکتا ہے اور یہ منظرنامہ درحقیقت اِس حقیقت کا عکاس ہے کہ ہمارے ہاں تحفظ ماحول کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہ دلسوز مناظر ہمیں یہ سوال کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ اِس قدر گندگی پھیلانے کا مقصد کیا ہے اور اِس سے کیا حاصل کیا جا رہا ہے؟ گردوپیش میں ماحول کو نقصان پہنچانے والی یہ مثالیں قبول کرنا مشکل ہے لیکن اس طرح کی جگہیں صرف کراچی کے ساحل ہی کا منظرعام نہیں بلکہ ملک کے سبھی چھوٹے بڑے شہروں کا احاطہ کئے ہوئے ہیں گویا یہ گندگی کے ڈھیر ہماری پہچان (ٹریڈ مارک) بن چکے ہیں۔ کیماڑی جیٹی جیسی جگہیں گندگی کے لحاظ سے دائمی مسائل کی محض علامات ہیں‘ جن پر خاطرخواہ توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ماحول کو صاف ستھرا اور سمندروں کو صحت مند بنایا جا سکے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ میسوپوٹیمیا کی سلطنت تباہ ہو گئی تھی کیونکہ اُس کے لوگوں نے اپنے ماحول کی پرواہ نہیں کی تھی اور خطے کے قدرتی وسائل کا غلط استعمال کیا تھا۔ اگر ہم ماحولیات کو یونہی نظر انداز کرتے رہے اور قدرتی رہائش گاہوں کو تباہ ہونے دیتے رہے تو تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہے اور اِس کے اسباق و نتائج ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس کے مطابق پاکستان 147ممالک کی فہرست میں 188ویں نمبر پر ہے۔ اس پوزیشن کو ڈویلپمنٹ انڈیکس پر کم سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں تعلیم کے سالانہ اوسط سال پانچ فیصد ہیں‘ جو تعلیم کے لحاظ سے ہماری قومی توجہ کی افسوسناک حالت کی نشاندہی کرتی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اپنی کارکردگی رپورٹ میں پاکستان کو ایک سو نوے ممالک میں ایک سو بائیسویں درجے پر رکھا ہے۔ اقوام متحدہ کے صحت سے متعلق پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جیز) سے متعلق رپورٹ میں پاکستان کو 149ممالک میں سے 188ویں نمبر پر دکھایا گیا ہے جو کہ بنگلہ دیش اور موریطانیہ جیسی صورتحال کی عکاسی ہے۔ پاکستان کی 38.8 فیصد آبادی ’کثیر الجہتی غربت‘ کا شکار ہے۔ معیاری تعلیم تک رسائی محدود ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کا فقدان اور عوام کی اکثریت ناقص معیار زندگی رکھتے ہیں اگرچہ یہ انتہائی مایوس کن اعداد و شمار ہیں لیکن لوگ یہ جاننے میں دلچسپی لے سکتے ہیں کہ ماحولیات پر ہماری بحث کے لئے اعداد و شمار ہی کیوں اہم ہوتے ہیں۔ درحقیقت اِن اعدادوشمار سے ماحول کی ابتری و خستہ حالی کا دیگر ممالک سے موازنہ کیا جا سکتا ہے کہ کس طرح اگر تعلیم و شعور عام نہیں ہوگا تو اِس سے معاشرے میں شفافیت‘ تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کا معیار بلند نہیں ہوگا۔ دنیا کے سب سے بڑے صارف ڈیٹا بیس نومبیو کے مطابق 277 شہروں میں سے کراچی دنیا کا آٹھواں آلودہ ترین شہر ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کی جانب سے سال دوہزارتیرہ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ جس کا عنوان ’پاکستان کا ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی کا نقطہ نظر‘ تھا میں ’پریشان کن حقائق‘ پیش کئے گئے اور توقع تھی کہ اِن برسرزمین حقائق کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ہمارے فیصلہ ساز خاطرخواہ اقدامات کریں گے۔ دوسری طرف ملکی آبادی میں جس شرح سے اضافہ ہو رہا ہے اُس تناسب سے وسائل نہیں بڑھ رہے۔ مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے رجحان کے ساتھ شہری علاقوں میں آبادی کا بڑھتا ہوا ارتکاز بھی ایک مسئلہ ہے۔ 1950ء سے 2012ء کے درمیانی عرصے کے دوران پاکستان کی شہری آبادی میں دس گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ حوصلہ افزا رجحان نہیں ہے۔ بڑھتی ہوئی شہرکاری کے رجحان میں کچھ بڑے شہروں کے وسائل پر آبادی کا بوجھ زیادہ ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کل شہری آبادی کا بیس فیصد آباد ہے جبکہ لاہور اور فیصل آباد کی مجموعی آبادی قومی آبادی کا بیس فیصد ہے۔ اِسی طرح راولپنڈی‘ ملتان‘ حیدرآباد‘ گجرانوالہ اور پشاور میں مجموعی طور پر ملک کی چودہ فیصد آبادی رہتی ہے جبکہ باقی چھیالیس فیصد شہری آبادی قریب چارسو نسبتاً چھوٹے بڑے قصبوں اور شہروں میں رہتی ہے۔ آٹھ بڑے شہر سالانہ تین فیصد سے زیادہ کی شرح سے بڑھ رہے ہیں اور متوقع رجحانات کے مطابق آبادی کی یہ شرح اگلی دہائی میں بھی جاری رہے گی۔ مذکورہ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ”ماحولیاتی نقطہ نظر سے‘ پاکستان کی آبادی میں غیر معمولی اضافہ‘ چاہے وہ مجموعی طور پر ہو یا شہری زندگی کے طور پر‘ بنیادی سہولیات اور بنیادی ڈھانچے میں مناسب توسیع کے بغیر ہو رہا ہے اور لوگوں کی اکثریت کو ایسے حالات سے دوچار کر رکھا ہے‘ جو تسلی بخش زمرے میں نہیں آتے۔ آنے والے برسوں میں اچھی طرح سے سوچی سمجھی اور مناسب منصوبہ بند اصلاحات کی عدم موجودگی میں یہ صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔ آبادی کے بڑھتے ہوئے تناسب اور چند شہروں پر اِس کے بوجھ کو مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی ضروری ہے کہ ملک میں نئے شہروں کا قیام عمل میں لایا جائے‘ جو منصوبہ بندی کے تحت آباد ہوں اور اِن میں رہنے والوں کو تمام بنیادی سہولیات میسر ہوں۔ ایک نیا ماڈل شہر بنا کر لوگوں کوبڑے شہروں کی طرف نقل مکانی کرنے سے روکا جا سکتا ہے اور اِس لئے بھی ضروری ہے کہ کیونکہ ملک کے چند بڑے شہر اپنی حد اور وسائل سے زیادہ پھیل گئے ہیں اور اب وہاں کی بلدیاتی حکومتوں کے لئے ممکن بھی نہیں رہا کہ وہ عوام کو تمام بنیادی سہولیات فراہم کر سکیں۔اگر منصوبہ بندی کے ساتھ شہروں کی آبادکاری پر توجہ دی جائے تواس سے موجودہ شہروں پر آبادی کا دباؤ کم ہونے میں مدد ملے گی اور دوسری صورت میں شہریوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کا عمل زیادہ موثر ہو سکتا ہے اس سلسلے میں چین جیسے ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جہاں پر آبادی بہت زیادہ ہونے کے باوجود رہائشی مسائل نہ ہونے کے برابر ہیں اور شہریوں کو بنیادی ضروریات کی فراہمی کا عمل بھی موثر انداز میں جاری ہے اس تمام عمل میں بنیادی کردار منصوبہ بندی اور مربوط کوششوں کا ہے جس کی طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر محض آبادی کا دباؤ شہروں پر بڑھنے سے ہی مسائل پیدا ہوتے تو یہ مسئلہ دیگر ممالک میں بھی موجود ہے اور اسے بخوبی حل کیا گیا ہے نئے شہروں کی آبادکاری سے کئی طرح کے فوائد سامنے آئیں گے سب سے بڑھ کر مخصوص شہروں پر پڑھنے والے دباؤ سے چھٹکارہ مل سکتا ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ معیار زندگی بہتر بنانے کی حکومتی کوششوں کو بھی اس سے فائدہ ہوگا۔ چین میں جو انداز نئے شہروں کو بسانے کے لئے اپنایا گیا ہے وہ ایک بہترین مثال ہے اور یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ چین یہاں سی پیک جیسے منصوبے پر عمل پیرا ہے اور سب سے بڑھ کر صنعتی بستیوں کو آباد کرنے کی پالیسی پر عمل جاری ہے ایسے میں ضروری ہے کہ ہر صنعتی بستی کے آس پاس نئے شہر بسائے جائیں جہاں تک نہ صرف ان متعلقہ صنعتوں کو یہاں سے ماہر کاریگر ملیں گے بلکہ یہ شہر دوسرے علاقوں کے لئے ایک بہترین مثال کے طور پر موجود رہیں گے اور اس طرف جس قدر جلد توجہ دی جائے اس قدر بہتر اثرات سامنے آئیں گے اس ضمن میں جو بھی پالیسی بنائی جائے اس کے ساتھ اس امر کو بھی یقینی بنایا جائے کہ حکومت کے آنے جانے سے اس پالیسی پر عمل درآمد میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: سہیل عظمی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام