’بیٹی پڑھاؤ‘ ملک بچاؤ

حالات و واقعات سے عیاں ہے کہ رواں برس ’سال دوہزارتیئس‘ پاکستان میں عام انتخابات ہوں گے۔ جب بھی عام انتخابات ہوتے ہیں تو ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اپنا اپنا انتخابی منشور تیار کرتی ہیں اور پھر یہ انتخابی منشور عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے رابطہ عوام مہمات دیکھنے میں آتی ہیں۔ میڈیا‘ سول سوسائٹی اور یہاں تک کہ حریف سیاسی جماعتیں بھی ایک دوسرے کے منشور کا جائزہ لیتی ہیں اور ان کی نمایاں خوبیوں اور خامیوں پر سوال اُٹھائے جاتے ہیں تاہم تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی منشور میں جس ایک بات کا اضافہ کرنا چاہئے اور جس کے بارے میں تمام سیاسی جماعتوں کو آپس میں بھی بات کرنی چاہئے وہ یہ ہے کہ پاکستان میں لڑکیوں کی شرح خواندگی میں کس طرح اضافہ کیا جائے‘ کیونکہ خواتین کی شرح خواندگی میں اضافہ سے بہت سارے مسائل کا حل ممکن ہے۔پاکستان کے لئے ترجیح دو کروڑ تیس لاکھ (تیئس ملین) سے زیادہ وہ بچے ہونے چاہیئں جو تعلیمی اداروں سے باہر ہیں۔ یہ کسی بھی طرح سے کم تعداد نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس غیراستعمال شدہ اور ضائع شدہ انسانی وسائل کو تعلیم نہ دی گئی تو تباہ کن مستقبل کا سامنا کرنا ہوگا۔ سکول نہ جانے والے لاکھوں بچوں میں لڑکیوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ پاکستان بھر میں ”بیٹی پڑھاؤ‘ ملک بچاؤ“ نامی حکمت عملی وقت کی ضرورت ہے۔ اس طرح کا پروگرام ہر سیاسی جماعت کے منشور اور انتخابی مہمات میں سرفہرست ہونا چاہئے اور اِسے جنگی بنیادوں پر خواتین کی تعلیم کی حوصلہ افزائی‘ کے لئے ڈیزائن کیا جانا چاہئے۔ لڑکیوں کے لئے تعلیم اور اس کے فوائد کا احاطہ ممکن نہیں۔ ایک تعلیم یافتہ لڑکی اپنے اور اپنے خاندان کا مستقبل سنوار سکتی ہے اور وہ معاشی سرگرمیوں میں حصہ لے کر معاشرے کے معاشی ترقی میں بھی بھرپور کردار ادا کر سکتی ہے تاہم اِس کے لئے جارحانہ انداز میں مہمات کی منصوبہ بندی ہونی چاہئے اور منصوبہ بندی ہی نہیں بلکہ اِس پر عمل درآمد بھی کیا جانا چاہئے۔ طالبات کی تعلیم سے متعلق مہم مقامی اور علاقائی زبانوں میں چلائی ہونی چاہئے اور اس سوچ کو ملک کے ایوانوں اور ذہنوں تک پہنچانے کے لئے ریاستی وسائل کا استعمال کیا جائے۔ منشور اور انتخابی مہمات میں خواتین کی تعلیم پر توجہ صرف ایک نقطہ آغاز ہے اور اگر اِس پر عمل درآمد ہو گیا تو پاکستان میں ایک سیاسی و سماجی اور معاشی انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔خواتین کی تعلیم اُن کے خلاف ہونے والے جرائم کی روک تھام کے لئے بھی ضروری ہے۔ خواتین کو سردست غیرت کے نام پر قتل‘ تشدد‘ جنسی ہراسگی‘ محدودیت‘ سماجی دباؤ اور معاشی بقا جیسے چیلنجز کا سامنا ہے اور ملک کی یہ بڑی آبادی ’سیاسی غفلت‘ کی و جہ سے ضائع ہو رہی ہے۔ آج کے پاکستان کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ خواتین کی تعلیم کو بطور ضمنی نہیں بلکہ بنیادی موضوع کے طور پر دیکھا جائے کیونکہ اِس سلسلے میں پیشرفت کرتے ہوئے پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔ خواتین کو تعلیم نہ دینے کی پاکستان کو بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے اور یہی بہت سے سماجی و معاشی مسائل کی بنیادی وجہ بھی ہے لہٰذا وقت ہے کہ اِس حوالے سے غور کیا جائے اور طے کیا جائے کہ پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لئے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے اور اِس کے لئے کن عملی اقدامات سے آغاز ہونا چاہئے۔خواتین کی تعلیم کو فروغ دینے کی مہم کا پہلا مرحلہ اس کی ضرورت اور اس کی اہمیت کا ادراک و اعتراف کرنا ہے اور قومی سطح پر اِس حوالے سے شعور پیدا کرنا ہے۔ یہ کام بڑی آسانی کے ساتھ ٹیلی ویژن ڈراموں اور بات چیت کے پروگرامز (ٹاک شوز) کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ عوام کو شعور دینا چاہئے اور اُن کے سامنے مثبت نتائج رکھنے چاہیئں کہ کس طرح والدین اپنی بیٹیوں کو تعلیم دیتے ہوئے روایتی اور معاشرتی رکاوٹوں سے لڑ سکتے ہیں۔ یہ سب عملاً کرنے کے لئے ایک طاقتور لائحہ عمل وضع کرنے (اسکرپٹ تحریر کرنے) کی ضرورت ہے کہ کس طرح بچیوں کی تعلیم سے کوئی خاندان اور ملک حیرت انگیز رفتار سے ترقی کر سکتا ہے۔ کسی معاشرے کی مضبوط کے لئے اُس کے ہاں خواتین کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور اِسے بھرپور طریقے سے استعمال کیا جانا چاہئے۔ ایسے طبقات جو خواتین کی تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں اُنہیں اِس قومی ضرورت سے آگاہ کرنے کے لئے ریاست کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔لڑکیوں میں تعلیم حاصل کرنے کی خواہش پیدا کرنے کا ایک اور طریقہ یہ بھی ہے کہ الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے قومی اور علاقائی زبانوں میں مشہور شخصیات کے مختصر پیغامات جاری کئے جائیں جو واضح اور مؤثر انداز میں ادا کئے گئے ہوں۔ اِسی طرح مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے خواتین کو بھی بطور مثال اور ’سنگ میل‘ قوم کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے جن کی کامیابیوں سے متعلق کہانیوں سے لڑکیوں کو کچھ کرنے کی ترغیب ملے گی۔ پاکستان میں ٹیلی ڈینسٹی خطے کے دیگر ممالک سے زیادہ ہے اور اگر اسے تعلیم‘ آگاہی و شہری احساس وغیرہ کے لئے استعمال کیا جائے تو مفید و بہتر ہوگا جبکہ اِس سے غفلت اصلاح طلب ہے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے بھی لڑکیوں کو روائتی و غیرروایتی طریقوں سے تعلیم دی جا سکتی ہے۔ تعلیم سے متعلق قومی و صوبائی فیصلہ سازوں کو سمجھنا چاہئے کہ موجودہ حالات میں جبکہ مصنوعی ذہانت ہر شعبے کا احاطہ کر رہی ہے تو ’ڈیجیٹل خواندگی‘ بھی اتنی ہی اہم ہو گئی ہے جتنی کہ روایتی خواندگی۔ پاکستان میں خواتین کی اکثریت کو تعلیم اور ہنر مندی کے ذریعے بااختیار بنا کر مرکزی دھارے میں لایا جا سکتا ہے اور یہ اقدام پاکستان کی تقدیر بدلنے کا مؤجب ہوگا جس کے لئے ”بیٹی پڑھاؤ‘ ملک بچاؤ“ پر پورے یقین کے ساتھ عمل درآمد ہونا چاہئے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: تیمور کے بندے۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)